ڈسٹرکٹ نفارمیشن برانچ ملیر اور رینجرز انٹیلیجنس کے باہمی اشتراک سے بلاتفریق منشیات فروشوں کے خلاف کارروائیاں عمل میں لائی جائیں:رپورٹ

شہر قائد کراچی کے ضلع ملیر کے مختلف تھانہ جات کی حدود میں قائم منشیات کے اڈے بند نہ ہوسکے

کراچی(وسیم احمد عباسی/انٹرنیشنل ایکسپریس نیوز) پاکستان میں منشیات کے عادی افراد کی تعداد 76لاکھ ہے جن میں زیادہ تر تعداد نوجوانوں کی ہے اس میں 78فیصد مردجب کہ 22فیصد لڑکیاں ہیں منشیات کی لت میں مبتلا ہونے والوں کی تعداد میں ہر سال 40ہزار افراد کا اضافہ تشویش ناک ہے۔

اینٹی نارکو ٹکس فورس کے مطابق کراچی کی 10لاکھ آبادی منشیات پر ایک کثیر رقم خرچ کررہی ہے پوش اور مضافاتی علاقوں سمیت تعلیمی ادارے بھی منشیات سے پاک نہیں ہیں جہاں منشیات کا استعمال ایک فیشن بن گیا ہے 

کراچی کے ضلع ملیر کے مختلف تھانہ گڈاپ ،میمن گوٹھ ، اسٹیل ٹاؤن ، شاہ لطیف ٹاؤن ، سکھن ، قائد آباد ، شرافی گوٹھ ، ابراہیم حیدری اور ملیر سٹی شامل ہیں کے مختلف علاقوں میں قائم منشیات کے اڈے عوام کی رگوں میں زہر گھول رہے ہیں اور یہ اڈے نصف صدی سے زائد عرصے سے قائم ہیں 

روس ،امریکا اور افغانوں کی باہمی جنگ کے دوران کلاشنکوف کلچر کے ساتھ جان لیوا نشہ ہیروئن کو ایک منافع بخش کاروبار کی طرح درآمد کرایا گیاجس نے اب تک بے حساب گھروں کے روشن چراغ گل کردیے ہیں ابھی ان پر قابو نہیں پایا جاسکا ہے کہ رفتہ رفتہ مختلف اقسام کے مزید دیگر جان لیوا نشے در آئے ہیں جنہوں نے نسل نو کو ذہنی و جسمانی طور پر مفلوج کرکے رکھ دیا ہے ملک بھر سے منشیات کی کھیپ کراچی اترنے سے لیکر تقسیم تک متذکرہ بالا تھانہ جات کی حدود سے ہوتی ہے 

شہر قائد کراچی کے ضلع ملیر کے مختلف تھانہ جات کی حدود میں قائم منشیات کے اڈے بند نہ ہوسکے

ملیر کے بعض علاقوں میں سرراہ گلی کوچوں میں منشیات اس طرح فروخت کی جارہی ہوتی ہے کہ جیسے آلو ، پیاز فروخت کی جارہی ہو، مگر افسوس ! کوئی پوچھنے والا نہیں ، جو کہ لمحہ فکریہ ہے  سماجی حلقوں کا کہنا ہے کہ اگر علاقہ پولیس پر کارروائی کے لیے دباؤ بڑھتا ہے تو وہ نمائشی کارروائی کرتی ہے منشیات فروشوں کی گرفتاری کے بجائے نشی افراد کی پکڑ دھکڑ کرتی ہے

 جب کہ ملیر کے ان علاقہ جات میں  منشیات فروش ایک غیراعلانیہ مفاہمتی پالیسی کے تحت ایک دوسرے کے علاقوں میں مداخلت نہیں کرتے قائد آباد تھانہ کی حدود میں ہیروئن اور آئس کی ترسیل کے سب سے بڑے ڈیلر بخت روان اور اسکا بھائی علی روان خاندان کے دیگر درجن سے زائد افراد شامل ہیں یہ قائد آباد اور سکھن کی حدود بختاور گوٹھ ، خاصخیلی گوٹھ، عطاء الرحمن گوٹھ اور ریڑھی گوٹھ کے علاقوں میں یومیہ 10 لاکھ روپے کی منشیات فروخت کرتے ہیں منشیات فروختگی کا طریقہ کار کچھ اس طرح سے ہے کہ فی کارندہ 8 ٹپال فروخت کرتا ہے جسکی قیمت 80 ہزار روپے سے 1 لاکھ 30 ہزار روپے تک بنتی ہے 10 کارندوں پر تقسیم کیا جائے تو یومیہ 8 لاکھ بنتے ہیں 

پی ایس قائد آباد اور سکھن کی حدود میں 8 بڑے منشیات فروش جب کہ چھوٹے پیمانے پر فروخت کرنے والوں کی تعداد درجن سے زائد ہے جن میں کچھ منشیات فروش ان بڑے منشیات فروشوں سے خرید کر فروخت کرتے ہیں جب کہ کچھ لوگ ملیر سٹی ، گڈاپ اور سچل کی حدود میں کاروبار کرنے والوں سے خریدتے ہیں

پی ایس قائد آباد کی کی حدود اسپتال چورنگی ، مصطفی مسجد ، احسان گراؤنڈ ، گلشن بونیر ، بلاول ٹاؤن ، مجید کالونی ، سیکٹر 1 اور 2 ، اولڈ مظفرآباد کالونی ، نیو مظفرآباد کالونی میں منشیات فروش بذریعہ ہائی روف ، موٹر سائیکل اور پیدل موبائل فون کے ذریعے منشیات فروخت ہیں 

 ان منشیات فروشوں میں جاوید عرف عرف ڑند ( اندھا) جوکہ جیب کترا بھی رہ چکا ہے اور سیف اللہ عرف کا کونی ، بلاول ڈان مجید کالونی سیکٹر 2 میں منشیات فروخت کر رہے ہیں جب کہ مصطفی مسجد اسپتال چورنگی کے پاس مشہور چاچا کے دو بیٹے لئیق عرف لڑلے اور دوسرے بیٹا نام نامعلوم جو ہر وقت بالوں کو کلر لگا کر لال رکھتا ہے بیچ منشیات فروخت کر رہے ہیں۔

احسان گراؤنڈ کے قریب  گلی نمبر 7 میں شہاب اور اسکا بھائی ہیروئن اور آئس فروخت کر رہے ہیں اور گلشن بونیر میں مجاہد تھلے والے کے پچھلی طرف مجاہد تھلے والے کا چھوٹا بھائی خانو ہیروئن فروخت کر رہا ہے 

مصطفی مسجد سے پہلے مٹھو خان نامی شخص منشیات فروش ہیروئن اور آئس فروخت کر رہا ہے جو کہ پہلے چورا بھی بیچتا تھا جبکہ مصطفیٰ مسجد کے سامنے والی پٹی میں بھائی جان دوکاندار کا بھتیجا صبح 7 بجے پوڈریوں کی لائن لگا کر مال دینے میں مصروف ہوتا ہے۔

شہر قائد کراچی کے ضلع ملیر کے مختلف تھانہ جات کی حدود میں قائم منشیات کے اڈے بند نہ ہوسکے

اسی طرح صدیقیہ مسجد کے پاس چاندی کباڑی اور اسکے دو کارندے جو کہ بدلتے رہتے ہیں مین اسپتال چورنگی اور اطراف میں منشیات فروخت کر رہے ہیں جنہیں پولیس کا مخبر ظفر کابلی پولیس کا پکڑا ھوا مال لاکر دیتا ہے اور حنیف اڈے کے پاس پناکا اور اس کا بھائی پوڈر بیچ رہے ہیں یاد رہے پناکا پہلے حنیف چرس کے اڈے میں لانگری کا کام کرتا تھ

نیومظفرآباد کالونی میں امجد اور اسکا بھائی صابر منشیات فروخت کرتے ہیں جنہیں منشیات پہنچانے کی زمہ داری انکے بڑے بھائی شبیر عرف ماما کی ہے یہ تینوں منشیات فروش بخت روان کے رشتے دار بھی ہیں جو کبھی بخت روان کا مال اور کبھی پشاور اور کوئٹہ سے مال منگواتے ہیں ان سب منشیات فروشوں کو منشیات کی سپلائی خائستہ عمر ولد بخت عمر اور اسکے بھائی بلی کی ہے جو روزانہ اورنگی ٹاؤن سے موٹر سائیکل پر منشیات لاکر سپلائی کرتے ہیں 

کچھ دن قبل پولیس نے خائستہ عمر منشیات فروش کو اسپتال چورنگی کے اطراف سے گرفتار کیا مگر پولیس نے بخت روان کی سفارش پر  60 ہزار روپے رشوت لیکر چھوڑ دیا تھا حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ملیر پولیس جدید ٹیکنالوجی استعمال کرے یا نہ کرے مگر منشیات فروشوں نے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال بھیبشروع کردیا ہے اور منشیات فروشوں نے ایک واٹس ایپ گروپ بنا رکھا ہے جس کے تحت چھوٹی عمر کے لڑکوں کو منشیات فروختگی پر مامور کر رکھا ہے منشیات فروشوں کے مطابق منشیات فروشی میں بچوں کا استعمال انتہائی کامیاب فارمولہ ثابت ہواہے 

اسوقت درجن سے زائد چھوٹی عمر کے لڑکے پی ایس قائدآباد اور پی ایس سکھن کی حدود میں منشیات فروخت کر رہے ہیں واٹس ایپ گروپ میں منشیات کا آرڈر بک ہوتا ہے اور سپلائی میں پسنجر رکشے ، موٹر سائیکل ، وائٹ کرولا کار اور ڈبل ڈور گاڑیاں بھی استعمال کی جاتی ہیں اس منشیات کی ترسیل میں بلیک کلر ڈبل ڈور گاڑی بہت مشہور ہے 

شاہ جی نامی منشیات فروش پہلے تھانہ قائدآباد کی حدود میں رہتا تھا جبکہ اسوقت تھانہ شاہ لطیف ٹاون کی حدود ملیر ندی میں رہائش پذیر ہے کچھ دن پہلے رینجرز انٹیلیجنس ٹیم نے بلیک ڈبل ڈور گاڑی والے کو گرفتار کرکے تھانہ قائدآباد کے حوالے کیا تھا اور منشیات فروش سے 5کلو سے زائد چرس اور اسلحہ برآمد ہوا تھا 

قائدآباد پولیس نے ملیر کورٹ کے ایک وکیل کی مداخلت پر منشیات کا مقدمہ درج نہیں کیا تھا اور ملزم کو صرف سندھ آرمز ایکٹ کا مقدمہ درج کرکے سہولت فراہم کی گئی تھی 

 انٹرنیشنل ایکسپریس نیوز کو حاصل شواہد کے مطابق کچھ لوگ جو نارمل نوکری کرتے ہیں وہ بھی منشیات فروشی کرکے اسکی کمائی سے اپنے شوق پورے کر رہے ہیں دوسری جانب پولیس نے کچھ منشیات فروش مخبر رکھے ہوئے ہیں جو اپنے مخالفین کے مخبری کرکے انہیں گرفتار کراتے ہیں اور اپنا دھندہ آزادانہ طور پر چلاتے ہیں جبکہ گرفتار منشیات فروش کو چھڑانے کے عوض بھی پیسہ وصول کرتے ہیں پولیس نے بھی اسے فائدہ مند کاروبار سمجھ کر منشیات فروشوں کو پکڑ کر چھوڑنا شروع کردیا ہے

 منشیات فروشوں کو پکڑنے والے ادارے کے اہلکار بھی منشیات فروختگی میں ملوث پائے گے ہیں شاہ لطیف میں کوہی گوٹھ ، عبداللہ گوٹھ کا پچھلا علاقہ قائد آباد گوبری گراؤنڈ اور ملیر میں غریب آباد کا علاقہ بھی منشیات فروشوں کے لیے جنت تصور کیا جاتا ہے جبکہ تھانہ ابراہیم حیدری میں شیطان چوک پر جیکٹ والا بندہ کھڑے ہوکر کھلے عام پاؤڈر اور آئیس بیچ رہا ہے۔

قائد آباد پولیس نے سوشل میڈیا پر خبر وائرل ہونے پر دو منشیات فروش امجد اور کاکونی کو گرفتار کرکے مقدمات درج  کیے ہیں اورمذکورہ منشیات فروشوں کو جیل بھیج دیا ہے 

 اسکے علاوہ منشیات فروشوں کے ساتھ مسلسل رابطوں میں رہنے والے پولیس کے مخبر خاص و پولیس کی نمائشی کارروائیوں پرخیر مقدمی خبریں چلا کر اپنی روزی روٹی کو تحفظ دیتے ہیں اور خود ساختہ ترجمان بنکر پولیس کے حق میں خبریں لگاتے ہیں ان خودساختہ ترجمانوں کو کھلے دل سے دعوت ہے کہ انٹرنیشنل ایکسپریس نیوز منشیات فروشوں کے خلاف اپنی جنگ جاری رکھے گا جسے بھی ہمارے رپورٹر حضرات کے نام و نمبرز چاہیں وہ ہم سے رابطہ کرے ہم خود تفصیلات فراہم کرینگے مگر نوجوان نسل کو تباہی سے بچانے  کے لیے اپنی کوشش جاری رکھیں گے 

ایس ایس پی ملیر کو چاہیے کہ ڈسٹرکٹ انفارمیشن برانچ اور رینجرز انٹیلیجنس کو منشیات فروشوں کے خلاف کارروائی کرنے کا ٹاسک دیاجائے اور ملیر میں قائم قدیمی و نئے منشیات فروشی کے اڈوں کو جڑ سے ختم کیا جائے ۔