پاکستان: ماحولیاتی نظام کو لاحق خطرات کے باعث تنازعات کا خدشہ
کراچی (مانیٹرنگ ڈیسک)پاکستان کا شمار دنیا کے ان تیس ممالک میں ہوتا ہے جہاں کے ماحولیاتی نطاموں کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ ان ممالک میں ماحولیاتی نقصانات مقامی تنازعات کو جنم دے سکتے ہیں جو بڑے پیمانے پر لوگوں کی مہاجرت کا سبب بن سکتے ہیں۔
انسٹیٹیوٹ آف اکنامکس اینڈ پیس کی جانب سے 'ایکولوجیکل تھریٹ رپورٹ' میں دنیا کے 178ممالک کا جائزہ لیا گیا تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کے کون سے ممالک اور خطے ماحولیاتی نظاموں کو لاحق خطرات کے باعث تنازعات کا شکار ہو سکتے ہیں۔ خوراک اور پانی سے متعلق خطرات، آبادی میں اضافہ، درجہ حرارت میں تبدیلیاں، اور قدرتی آفات سے متعلق ڈیٹا کا مقامی اقتصادی صورتحال ، حکومت، کاروباری ماحول اور انسانی حقوق کے ڈیٹا کے ساتھ موازنہ کر کے یہ رپورٹ مرتب کی گئی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اگر ماحول کو پہنچنے والے نقصانات پر فوری طور پر قابو نہ پایا گیا تو دنیا کے تین ایسے خطے ہیں جہاں تنازعات جنم لیں گے اور بہت بڑے پیمانے پر لوگ ہجرت پر مجبور ہوں گے۔
انسٹیٹیوٹ آف اکنامکس اینڈ پیس کے یورپ اور مشرق وسطی کے ڈائریکٹر سیرج اسٹروبانٹس نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس رپورٹ میں ایسے تیس ممالک کی نشاندہی کی گئی ہیجہاں کے ماحولیاتی نظاموں کو شدید خطرات لاحق ہیں اور وہاں مالی بدعنوانیاں، کمزور ادارے، کاروبار کرنے کا ناموافق ماحول اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم جیسے مسائل عام ہیں۔
ان ممالک میں سب سے زیادہ خطراتت سے دوچار ممالک میں ایران، موزمبیق، ماڈاگاسکر، پاکستان اور کینیا ہیں۔ اس وقت تو یہ ممالک بظاہر مستحکم ہیں لیکن ان ممالک کے ماحولیاتی نظاموں کو خطرہ ہے۔ یہاں امن و امان کی صورتحال بھی کمزور ہے جس کے باعث انہیں مستقبل میں شدید بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
اس کے علاوہ شام، افغانستان، عراق، یمن، سنٹرل افریقین ریپبلک پہلے ہی تنازعات کا شکار ہیں اور انہیں بھی ماحولیاتی خطرات کا سامنا ہے۔ ان ممالک میں وسائل کی کمی تنازعات کو جنم دے رہی ہے اور تنازعات وسائل کی مزید کمی کا باعث بن رہے ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ماحولیاتی نظاموں کے خطرے سے دوچار ممالک میں مہاجرت بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ گزشتہ سال افریقہ اور مشرق وسطی سے پچاس ملین افراد تشدد اور تنازعات کے باعث ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے تھے۔
ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو کم کرنے سے مسئلے کا حل نہیں نکلے گا۔ رپورٹ میں حکومتوں اور بین الاقوامی ایجنسیوں کو تجویز دی گئی ہے کہ ایسے نظام تشکیل کیے جائیں جن میں صحت، خوراک، پانی، مہاجرین کی امداد، قرضے کی سہولیات، ذراعت وغیرہ کو خاص اہمیت دی جائے۔
انسٹیٹیوٹ آف اکنامکس اینڈ پیس کے بانی اور چیئرمین سٹیو کیلیلی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،'' اگر مختلف ایجنسیوں کو چھوٹے پیمانے پر ہی صحیح لیکن متحد کر دیا جائے اور وہ سب ساتھ مل کرکام کریں تو زیادہ بہتر نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ وہ بہتر انداز میں مسائل کو حل کر پائیں گی۔''
0 Comments
Post a Comment