امریکی تاریخ میں طیارے کے اغوا کا واحد معمہ جو آج تک حل نہیں ہو سکا۔

امریکی تاریخ میں طیارے کے اغوا کا واحد معمہ جو آج تک حل نہیں ہو سکا۔

کراچی (ویب ڈیسک)دوران پرواز لاکھوں ڈالرز لے اڑنے والا ہائی جیکر 50 سال بعد بھی ہاتھ نہ آیا،1971 میں امریکی یوم تشکر سے ایک رات قبل عامیانے حلیے میں لگ بھگ 40 سال عمر کے ایک شخص، جنہوں نے اپنا نام ڈان کوپر بتایا، ہوائی اڈے کے کانٹر پر پہنچے اور پورٹ لینڈ سے سیاٹل تک کی مختصر پرواز کی یک طرفہ ٹکٹ خریدی چند گھنٹوں میں ہی انہوں نے خود سے دو لاکھ ڈالرز (موجودہ 13 لاکھ ڈالر) سے بھرا بیگ لپیٹا ہوا تھا، جو انہیں تاوان میں ملا اور پھر انہوں نے پیراشوٹ پہنے طیارے سے چھلانگ لگا دی، جس کے بعد ان کا کبھی پتہ نہ چلامیڈیا نے انہیں ڈی بی کوپر کی عرفیت دی اس شخص کی طیارے سے نامعلوم مقام کی طرف چھلانگ کے 50 سال کے بعد بھی یہ واقعہ امریکی تاریخ میں طیارے کے اغوا کا واحد معمہ ہے جو آج تک حل نہیں ہو سکا۔

امریکی فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن (ایف بی آئی)نے کوپر کو خاموش رہنے والا شخص قرار دیا جو 40 کی دہائی میں دکھائی دیتے تھے۔ انہوں نے سفید شرٹ اور کالی ٹائی والا بزنس سوٹ پہن رکھا تھاانہوں نے طیارے کی پرواز کا انتظار کرتے ہوئے بربن اور سوڈا کا آرڈر دیا۔ ان کا منصوبہ بڑا سادہ تھا۔ طیارے کی روانگی کے بعد کوپر نے فلائٹ اٹینڈنٹ کو ایک پرچی تھمائی اٹینڈنٹ نے ان کے اس عمل پر فوری طور پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا جس پر انہوں نے اس کی جانب جھک کر کہا: مس، بہتر ہے کہ آپ پرچی کو دیکھ لیںمیرے پاس بم ہے۔

کوپر کے بریف کیس میں تاروں کا گچھا دیکھنے کے بعد بری طرح خوف زدہ فلائٹ اٹینڈنٹ نے ان کے مطالبات تحریر کیے، جو کہ چار پیراشوٹس اور دو لاکھ ڈالرز دینے کے تھے۔ اٹینڈنٹ یہ مطالبات ہدایت کے مطابق طیارے کے کیپٹن کے پاس لے گئیںسیاٹل میں طیارے کی لینڈنگ کے بعد کوپر نے رقم اور پیراشوٹس کے بدلے 36 مسافروں کو جانے کی اجازت دے دی۔ یہ رقم اور پیراشوٹس ایف بی آئی نے فراہم کیے کوپر نے طیارے کے عملے کو ضمانت کے طور پر ساتھ رکھتے ہوئے طیارے کے دوبارہ اور کم بلندی پر اڑانے کا مطالبہ کیا

اس بار طیارے کا رخ میکسیکو کی جانب تھا۔ سیاٹل اور رینو، نویڈا کے درمیان کسی جگہ کوپر نے بوئنگ 727 طیارے کے پچھلے دروازے سے باہر چھلانگ لگا دی۔ وہ رات شدید سرد تھی ایف بی آئی نے واقعے کی وسیع پیمانے پر تحقیقات کا آغاز کر دیا لیکن شمال مغربی امریکہ کے گھنے جنگلات میں کئی ہفتے جاری رہنے والی تلاش کے بعد کچھ ہاتھ نہ آیاپانچ سال سے زیادہ عرصے کے دوران آٹھ سو مشکوک افراد کے انٹرویو کے بعد بھی ہائی جیکر یا ان کے پیراشوٹ کا کوئی سراغ نہ ملا اور سوال کھڑے ہو گئے کیا وہ طیارے سے چھلانگ لگانے کے بعد زندہ بچ گئے؟ کیا انتہائی سرد جنگل میں ان کے کپڑے اور دوسرا سامان زیادہ عرصے تک ان کا ساتھ  دے سکتا تھا؟

محقق اور تاریخ دان ایرک یولس کے بقول: وہ ایسے شخص ہیں جنہوں نے جیمز بونڈ کا انداز اپنایاہسٹری چینل نے یولس کی کوپر کا معمہ حل کرنے کی کوششوں پر مبنی ایک دستاویزی فلم بھی بنائی۔ یولس واقعے کی چھان بین کر چکے ہیں اور 14 سال سے اس کے بارے میں لکھ رہے ہیں2000 کی دہائی میں ایف بی آئی کی سپیشل ایجنٹ میری جین فرائر نے معاملے کی تحقیقات کی۔ ان کا کہنا ہے کہ انتہائی بلندی پر چوری کرنے کے بعد کوپر امریکہ میں لوک داستان کے ہیرو بن چکے ہیںوہ اس کیس میں لوگوں کی موجودہ دلچسپی کو عقیدہ قرار دیتی ہیں جس کی بنیاد اس بات ہے کہ ہائی جیکر کا کبھی پتہ نہیں چل سکا۔

کئی سال میں متعدد مفروضے سامنے آئے جن میں سے بعض دور کی کوڑی ہیں۔ بستر مرگ پر پڑے متعدد افراد نے بھی ڈی بی کوپر ہونے کا دعوی کیاایف بی آئی نے متعدد مشکوک افراد کی پروفائلز کا جائزہ لیا۔ مثال کے طور پر شوقیہ پائلٹ اور ٹرانس جینڈر خاتون باربرا ڈیٹن، جنہوں نے مبینہ طور پر اپنے دوستوں کے سامنے اعتراف کیا یا پھر لِن ڈوئل کوپر، جن کی بھتیجی کو یقین تھا  کہ وہ واقعے میں ملوث ہیں کیونکہ اسی سال جب وہ یوم تشکر کے عشائیے میں آئے تو ان کے جسم پر خون لگا ہوا تھا اور ان کی حالت خراب تھی۔

فرائر نے دوسری عالمی جنگ میں حصہ لینے والے شیریڈن پیٹرسن نامی سابق فوجی کا بھی انٹرویو کیاآخر 2016 میں ایف بی آئی نے دوسرے مقدمات پر توجہ دینے کے لیے اس مقدمے کی فائل بند کر دی یولس کا کہنا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے نے چند سنگین غلطیوں کے باوجود مجموعی طور پر بہت اچھا کام کیاان کا استدلال ہے کہ ایف بی آئی نے طیارے کا غلط روٹ لیا اور اس طرح ڈی بی کوپر تلاش کے مقام سے میلوں دور زمین پر اتر گئے یوں اس واقعے کے اردگرد موجود پراسراریت امریکی شہریوں کے لیے دلچسپی کا سبب ہے۔