سات سال قبل رہائشیوں نے قریب سے آرمی پبلک سکول پر دہشت گردوں کا حملہ دیکھا، وہ آج بھی اس کے بارے میں بات کرتے ہوئے آبدیدہ ہوجاتے ہیں۔

سات سال قبل رہائشیوں نے قریب سے آرمی پبلک سکول پر دہشت گردوں کا حملہ دیکھا، وہ آج بھی اس کے بارے میں بات کرتے ہوئے آبدیدہ ہوجاتے ہیں۔
کراچی (خصوصی اشاعت/شگفتہ سکندر/کرنٹ نیوز/بلاگ ) سانحہ آرمی پبلک سکول کو سات سال پورے ہو گئے ہیں، لیکن جس علاقے میں یہ واقعہ پیش آیا، وہاں کے مکینوں کی آنکھیں آج بھی اس کے بارے میں بات کرتے ہوئے آبدیدہ ہو جاتی ہیں ان ہی میں سے ایک تیمور حفیظ ہیں جو پشاور کی ورسک روڈ پر قائم آرمی پبلک سکول سے ملحقہ اس گلی کے رہائشی ہیں جہاں سات  مسلحہ دہشت گردوں نے ایک سوزوکی وین میں داخل ہو کر سکول کی دیوار پھلانگ کر اندر گھس گئے تھے اس حملے میں آٹھ سے 18 سال کی عمر تک کے 132 طلبہ اور سکول عملے کے 17 طلبہ شہید ہوئے تھے۔

تیمور حفیظ نے  بات کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ ان کے اپنے بچے اس اسکول میں نہیں پڑھ رہے تھے لیکن اس واقعے کا ان پر اتنا اثر ہوا کہ وہ بھاگ کر سکول گئے اور اپنی بچیوں کے نام لے کر پکارتے رہے،وہ بتاتے ہیں کہ میں اپنی گلی میں سے گزر رہا تھا کہ میں نے گاڑی میں آگ لگی دیکھی، لوگ گاڑی کی بجائے سکول کے گیٹ کی جانب بھاگ رہے تھےپھر دیکھتے ہی دیکھتے فوجیوں نے تمام راستے اور دکانیں بند کروا دیں،تین دن تک ہمارا علاقہ بند تھا، سودا سلف لانے کے لیے ہم بمشکل پیدل ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتے تھے،تیمور حفیظ نے کہا کہ جن گھروں کے سامنے دہشت گردوں نے گاڑی میں دھماکہ کیا وہ لوگ اس سانحے پر اب مزید بات نہیں کرتے،وہ اپنے گھروں کے دروازے بند رکھتے ہیں یہ جو نالہ نظر آرہا ہے، پہلے اس کے اوپر کنکریٹ تھی، یہ ایک بند گلی تھی، سامنے ایک دیوار بنی تھی، اس سے آگے خالی جگہ کے پاس سکول ہے جس کی دیوار اتنی اونچی نہیں تھی جتنی اب ہیں۔ نہ ہی ان کے اوپر خاردار تاریں لگی تھیں۔

سانحے کے بعد آرمی پبلک سکول کی دیواریں اونچی کر دی گئیں اور ان پر خار دار تار بھی لگوا دی گئی،سکول کی تمام اندرونی وبیرونی راستوں پر چوکس پہرہ لگا رہتا ہے،تاہم علاقہ مکین اب دھیمی سرگوشیوں میں پشیمانی اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ اگر یہ پہرہ واقعے سے پہلے لگا دیا جاتا تو اتنا بڑا جانی نقصان کبھی نہ ہوتا۔

آرمی پبلک سکول کی موجودہ صورت حال

سات سال گزر جانے کے بعد آرمی پبلک سکول میں زندگی معمول کی طرف آگئی ہے، سانحے کے بعد اس سکول سے پڑھائی مکمل کرنے والے طلبہ اب دوسری تعلیمی درس گاہوں میں اعلی تعلیم حاصل کر رہے ہیں، جبکہ نئے آنے والے طلبہ اور عملہ یہاں پڑھنے اور کام کرنے کو باعث فخر سمجھتے ہیں،جب سانحے کے اثرات کے حوالے سے اس سکول کی اساتذہ اور ملازمین سےمیڈیا نے سوال کیا تو انہوں نے کہا کہ وہ اب پہلے سے کافی بہتر محسوس کر رہے ہیں۔ ان ہی میں سے ایک ٹیچر عالمہ غیاث جو خود بھی اس میں زخمی ہوئی تھیں نے کہا کہ اب وہ کافی حد تک نارمل زندگی کی طرف واپس آچکی ہیں،ان کا کہنا تھاکہ سائیکو تھراپی بھی مکمل ہو چکی ہے، جو ادویات میں لیتی تھی وہ اب نہیں لیتی،ہاں البتہ اب بھی کچھ لوگ ایسے ہیں جو پوری طرح سے اس صدمے سے نہیں نکلے ہیں۔

اے پی ایس حملہ میں 15 افسران کے خلاف کارروائی ہوئی

سات سال قبل رہائشیوں نے قریب سے آرمی پبلک سکول پر دہشت گردوں کا حملہ دیکھا، وہ آج بھی اس کے بارے میں بات کرتے ہوئے آبدیدہ ہوجاتے ہیں۔
سانحہ آرمی پبلک سکول کی سیکیورٹی کے معاملے پر فوج کا روایتی معیار برقرار نہ رکھ پانے کی وجہ سے ایک بریگیڈیئر سمیت 15 افسران اوراہلکاروں کے خلاف کارروائی کی گئی جب کہ میجر ڈاکٹر سمیت پانچ اہلکاروں کو فوج سے برطرف کر دیا گیا،سانحہ آرمی پبلک سکول کی سکیورٹی کے معاملے پر پاکستان فوج کے ایک بریگیڈیئر سمیت 15 افسران اور اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی گئی جب کہ میجر ڈاکٹر سمیت پانچ اہلکاروں کو فوج سے برطرف کر دیا گیا،رپورٹ میں 28 لواحقین، چھ آرمی افسران، نو پولیس افسران، اس وقت خیبر پختونخوا کے ہوم سیکرٹری سید اطہر علی شاہ اور 2014 میں تعینات ڈی سی پشاور ظہیر الاسلام کے بیانات قلم بند کیے گئے ،کرنٹ نیوز  کو حاصل شدہ باب انیس کی دستاویز اور معلومات کے مطابق رپورٹ کے حصہ چار باب نمبر انیس میں فوج کی جانب سے محکمانہ کارروائی کی تفصیل دی گئی ہے سانحے کے لواحقین کے بیانات قلم بند ہونے کے بعد انکوائری کمیشن نے وزارت دفاع سے رابطہ کیا اور ان سے استفسار کیا کہ لیفٹینیٹ کرنل کاشف نے جو بیان ریکارڈ کرایا تھا اس کے مطابق چند افسران اور اہلکاروں کے خلاف تحقیقات کی گئی ہیں تو وہ کورٹ آف انکوائری اور انضباطی کارروائی کی تفصیل کمیشن کو فراہم کی جائے۔

کمیشن کو وزارت دفاع کی جانب سے بتایا گیا کہ فوج کی کورٹ آف انکوائری نے تحقیقات کے بعد یہ کارروائی کی گئی تھی انکوائری کمیشن کو کارروائی پر مبنی تفصیلات کرنل کاشف نے پیش کیں،فوج کی محکمانہ کارروائی میں بریگیڈیئر مدثراعظم کو ترقی نہ دینے اور ریٹائرمنٹ کے بعد ملازمت نہ دینے کے احکامات جاری کیے گئے، جبکہ کرنل مظفرالدین اور کرنل حضرت بلال کو حساس مقامات پر تعینات نہ کرنے کی ہدایت کی گئی اور کرنل مظفر اور کرنل بلال کی ترقی اور بعد ازریٹائرمنٹ تعیناتیوں پر بھی منفی ریمارکس تحریر کیے گئے ہیں اسکے علاوہ حوالدار منظر حسین، سپاہی محمد عثمان، سپاہی محمد عدنان اور احسان اللہ کوصرف 28 دن قید بامشقت کی سزا سنائی گئی۔

اورسپاہی احسن نواز اور سعود اعظم کو بھی 28 دن قید بامشقت دی گئی،ان تمام اہلکاروں کو آئندہ حساس مقامات پرتعینات نہ کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے رپورٹ کے مطابق برطرف کیے جانے والے اہلکاروں میں میجر عاصم شہزاد، حوالدار محمد سلیم، لانس نائیک پرہیز خان، سپاہی محمد محفوظ الرحمن اور سپاہی سید رضوان شاہ شامل ہیں،عسکری حکام نے کمیشن کو دی گئی رپورٹ میں یہ واضح کیا کہ افسران اور اہلکاروں کے خلاف کارروائی سانحہ میں ملوث ہونے یا غفلت پر نہیں کی گئی۔ بلکہ ایسے حساس آپریشنز میں فوج کا ایک روایتی معیار ہوتا ہے جسے برقرار نہ رکھا گیا،مزید کہا گیا کہ اتنے بڑے سانحے کے بعد فوج کی جانب سے متعلقہ افسران اور اہلکاروں کے خلاف محکمانہ انکوائری اور کارروائی ناگزیر تھی،وزارت دفاع نے کمیشن کی دی گئی رپورٹ میں مزید کہا کہ حساس آپریشنز میں تمام وسائل موجود ہونے کے باوجود اگرسپاہی غیر مستعد ہو تو اس کو اپنے فرائض سے لاپرواہی سمجھا جائے گا۔

اے پی ایس حملہ، طلبہ کے والدین کو مایوس نہیں ہونے دیں گے:عمران خان

سات سال قبل رہائشیوں نے قریب سے آرمی پبلک سکول پر دہشت گردوں کا حملہ دیکھا، وہ آج بھی اس کے بارے میں بات کرتے ہوئے آبدیدہ ہوجاتے ہیں۔
وزیراعظم پاکستان عمران خان نے پشاور کے آرمی پبلک سکول پر حملے میں جان سے جانے والوں کی ساتویں برسی پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ وہ ان طلبہ کے والدین کو کبھی مایوس نہیں ہونے دیں گے،عمران خان نے جمعرات کو ایک ٹویٹ میں کہاکہ پاکستان نے دہشت گردی کو کامیابی سے شکست دی ہے۔ میں اس بات کا اعادہ کرتا ہوں کہ ہم اپنے شہید بچوں کے والدین اور بچ جانے والوں کو کبھی مایوس نہیں ہونے دیں گے ،وزیراعظم کا مزید کہنا تھا: تشدد اور اسے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے والوں کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔

یاد رہے 16 دسمبر 2014 کو پشاور کے ورسک روڈ پر واقع آرمی پبلک سکول پر شدت پسندوں نے حملہ کیا تھا، جس میں سکول اساتذہ اور پرنسپل سمیت 140 بچے جان سے چلے گئے تھے،اس حملے کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے قبول کی تھی ،جان سے جانے والے طلبہ کے والدین نے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کے لیے سپریم کورٹ میں درخواستیں جمع کروا رکھی ہیں،اس کیس کی 10 نومبر کو ہونے والی سماعت کے دوران وزیراعظم کی ذاتی حیثیت میں پیشی کے بعد عدالت عظمی نے حکومت کو چار ہفتوں بعد وزیراعظم کے دستخط کے ساتھ رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا تھا، تاہم نو دسمبر کو وفاقی حکومت نے رپورٹ جمع کرانے کے لیے سپریم کورٹ سے مزید تین ہفتوں کی مہلت دینے کی درخواست کردی ،سپریم کورٹ میں جمع کروائی گئی درخواست میں کہا گیا کہ وفاقی حکومت نے اے پی ایس میں جان گنوانے والے بچوں کے والدین سے ملاقات اور مذاکرات کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے۔

بعدازاں نو دسمبر کو ہی تحریک انصاف کی وفاقی حکومت کے ایک وفد نے سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق اے پی ایس واقعے میں شہید ہونے والے طلبہ کے والدین سے پشاور میں ملاقات کرنے کی کوشش کی جو بظاہر ناکام رہی اور وفاقی حکومت اور حکومتی وفد کی عدم دلچسپی کے باعث والدین نے ملاقات کا بائیکاٹ کرتے ہوئے پشاور میں احتجاج کیا اور سڑک بھی بلاک کی،اے پی ایس میں جان سے جانے والے ایک بچے کے والد عجون خان ایڈووکیٹ نے میڈیا  کو بتایا تھا کہ والدین کا اب ایک ہی مطالبہ ہے کہ ذمہ داروں کے خلاف ایف آئی آر درج کی جائیں اور یہی بات ہم سپریم کورٹ کے سامنے بھی رکھیں گے ،دوسری جانب والدین کے بیان کے برعکس حکومتی وفد میں شامل تحریک انصاف کی رکن قومی اسمبلی ساجدہ بیگم نے میڈیا کو بتایا تھا کہ ان کی ملاقات بہت کار آمد اور نتیجہ خیز رہی اور ملاقاتوں کا یہ سلسلہ مستقبل میں بھی جاری رہے گا۔