اگر ویسٹ انڈیز کے پاس اپنا کھویا وقار بحال کرنے کا کوئی موقع تھا تو وہ یہاں تھا۔ ٹیم اگرچہ نوآموز ہے اور ویسٹ انڈیز مینیجمنٹ کے ذہن میں بھی شکست و فتح سے زیادہ اہم اگلے ورلڈ کپ کے لیے جواں خون کو تیار کرنا ہے مگر یہاں جیت ممکن تھی۔

اگر پاکستانی ٹیم نے آئندہ مہینوں میں یہی تسلسل برقرار رکھا تو یقینا اگلے ورلڈ کپ کے بھی سیمی فائنلسٹس میں جگہ بنائے گا۔

پہلے میچ میں مایوس کن کارکردگی کے بعد دوسرے میچ میں ویسٹ انڈیز نے اچھا کم بیک کیا اور جیت کے عین قریب بھی آ گئے۔ یہاں ویسٹ انڈیز کے پاس برتری تھی کیونکہ دوسری اننگز میں تعاقب کا کوئی ایسا دبا بھی نہیں ہونا تھا اور پہلے بیٹنگ کر کے ویسٹ انڈیز ایسا مجموعہ جوڑ سکتا تھا کہ ہدف پاکستان کے لیے ناقابلِ تسخیر ہو جاتاویسٹ انڈین بیٹنگ کے پاس موقع یوں بھی بھرپور تھا کہ پاور پلے میں دردِ سر بننے والے شاہین شاہ آفریدی اور ڈیتھ اوورز میں اننگز کا ڈنک نکالنے والے حارث روف بھی پاکستانی الیون کا حصہ نہیں تھےمگر شاہنواز دھانی ان کی توقعات سے بہتر نکلے۔ جس جارحانہ انداز میں ویسٹ انڈیز نے اپنی اننگز کا آغاز کیا تھا، دھانی نے اس ساری برق رفتاری کے آگے بند باندھ دیے۔ ان کی رفتار اور لینتھ کی درستی کسی بھی بلے باز کے لیے پریشان کن تھی۔

برینڈن کنگ نے پچھلے میچ کی فارم برقرار رکھتے ہوئے اپنی ٹیم کو شاندار آغاز فراہم کیا۔ نکولس پورن نے پچھلے میچ کے برعکس ایک بار پھر ون ڈان پوزیشن پر کھیلنے کا فیصلہ کیا اور یہ ان کی ٹیم کے لیے بھی بہتر ثابت ہوا۔

براوو کی اچھی کاوش کے بعد گمان یہ تھا کہ جس قدر وسائل ویسٹ انڈیز کی جیب میں موجود تھے اور جیسی پاور ہٹنگ ان کے لوئر آرڈر کا خاصہ ہے، وہ یقینا 220 کے لگ بھگ مجموعہ تشکیل دے جائیں گے۔

مگر ڈیتھ اوورز میں دھانی کی شاندار بولنگ نے ایسے خطیر مجموعے کو خارج از امکان کر دیا۔ جس طرح سے وہ اننگز کے اواخر میں ہاتھ کھولنا چاہ رہے تھے، وہ حسرت ہی رہ گئی اور جو مجموعہ پاکستان کے لیے طے پایا، وہ اس بیٹنگ لائن کے لیے بآسانی قابلِ حصول تھا۔

اگر پاکستانی ٹیم نے آئندہ مہینوں میں یہی تسلسل برقرار رکھا تو یقینا اگلے ورلڈ کپ کے بھی سیمی فائنلسٹس میں جگہ بنائے گا۔

کیونکہ جیسی فارم محمد رضوان لے کر چل رہے ہیں اور ہر میچ میں کوئی نہ کوئی ریکارڈ شکن کارنامہ انجام دے دیتے ہیں، پاکستان کے لیے یہ ہدف کسی بھی لحاظ سے تشویش کن نہیں تھا۔ رضوان کے اب تک کے ٹی ٹوئنٹی کریئر کو اگر دیکھا جائے تو یہ کہنے میں عار نہیں کہ رواں سال وہ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کے ڈان بریڈمین رہے ہیں۔

نوآموز ویسٹ انڈین بولنگ کے پاس یہاں ان کے لیے کوئی پلان نہیں تھا۔ اگرچہ پچھلے میچ میں وہ رضوان کے خلاف آف سٹمپ لائن کا اچھا پلان لے کر چلے تھے اور خاصی حد تک کامیاب بھی رہے،لیکن محمد رضوان کوئی ایسے محدود بلے باز نہیں ہیں کہ بآسانی انھیں خاموش رکھا جا سکے۔ رضوان کی مستحکم اننگز کی بدولت یہاں ویسٹ انڈیز کے سبھی خواب دھرے کے دھرے رہ گئے اور جلدی وکٹوں کا حصول ممکن نہ ہو پایا،ویسے بھی یہ وکٹ بیٹنگ کے لیے نہایت سازگار تھی اور ویسٹ انڈیز کی بدقسمتی کہیے کہ بری فارم سے گزرنے والے بابر اعظم بھی یہاں کھل کر کھیلے اور اپنی کھوئی فارم بخوبی بحال کی۔

اگر پاکستانی ٹیم نے آئندہ مہینوں میں یہی تسلسل برقرار رکھا تو یقینا اگلے ورلڈ کپ کے بھی سیمی فائنلسٹس میں جگہ بنائے گا۔

پاکستان کے لیے ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں یہ ایک نہایت تابناک سال ثابت ہوا ہے۔ اس ٹیم کی فتوحات کے تناسب نے سرفراز احمد کی نمبر ون ٹیم کا بھی ریکارڈ توڑ دیا ہے۔ اور اس میں کلیدی کردار پاکستانی اوپنرز بالخصوص محمد رضوان کا رہا ہے جنھوں نے یہاں ریکارڈ چھٹی سینچری پارٹنرشپ ترتیب دی۔

اس کے سوا نہایت روشن پہلو یہ رہا کہ دیگر فارمیٹس کی طرح ٹی ٹونٹی میں بھی فنشنگ ہمیشہ پاکستان کا کمزور پہلو رہا ہے۔ مگر پچھلے کچھ عرصے میں آصف علی، محمد نواز اور شاداب خان کی بدولت یہ پاکستان کا مضبوط ترین پہلو بن کر ابھرا ہے۔

اگرچہ ون ڈے سیریز کے التوا کے سبب پی سی بی کچھ شاکی ضرور ہو گا مگر یہ اطمینان اپنی جگہ کہ ایک بھرپور سال کا اختتام ایک شاندار فتح اور کلین سویپ پر ہوا۔

اگر پاکستان آئندہ مہینوں میں یہی تسلسل برقرار رکھ گیا تو یقینا اگلے ورلڈ کپ کے بھی سیمی فائنلسٹس میں جگہ بنائے گا۔