ٹنڈو سومرو سندھ کا وہ گاؤں ہے جو پاکستان کے دیگر دیہاتی علاقوں سے بہت مختلف ہےصوبہ سندھ کے ضلع ٹنڈو اللہ یار میں واقع اس گاؤں کے چاروں طرف دس فٹ بلند دیوار موجود ہے، جو ایک کروڑ 40 لاکھ روپے کی لاگت سے 18 ماہ کے عرصے میں تعمیر کی گئی۔
اس گاؤں میں دو سکیورٹی چیک پوسٹس موجود ہیں، جہاں سے کسی کو بھی شناخت کے بغیر گاؤں میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہےگاؤں میں پانچ ہزار سے زیادہ افراد رہتے ہیں اور یہاں نکاسی آب کا بہترین نظام موجود ہے، جسے زیر زمین رکھا گیا ہے۔
گلیوں سے گزرتی ڈرینج کی نالیوں کو لوہے کی جالیوں سے کور کیا گیا ہے تاکہ کوئی راہ گیر یا جانور اس میں گر کر زخمی نہ ہو گاؤں کے لوگوں کے لیے بہتر سہولیات کے انتظامات کو یقینی بنانے کے لیے مختلف کمیٹیاں تشکیل کی گئی ہیں جو سہولیات کی فراہمی اور دیگر انتظامات کو دیکھتی ہیں۔
گاؤں میں موجود عاصم ایگری کلچر فارم کا شمار پاکستان کے بڑے ایگریکلچر فارمز میں ہوتا ہے اور زمین سے زیادہ پیداوار حاصل کرنے والے کسان کو ’مین آف دی ایئر‘ کے ایوارڈ سے نوازا جاتا ہے۔
یہاں بنیادی مسائل اور ان کے حل کے لیے سالانہ بجٹ تیار کیا جاتا ہے، جس میں گاؤں کا ہر فرد بڑھ چڑھ کر اپنا حصہ ڈالتا ہے۔ گاؤں میں نسبتاً ڈکیتی یا بڑی چوری کی واردات رجسٹر نہیں ہوئی۔
ٹنڈو سومرو کی انتظامی کمیٹی کے سربراہ خالد احمد نظامانی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے اس گاؤں کی تاریخ کے بارے میں بتایا کہ ’ٹنڈو سومرو 200 سالہ قدیمی گاؤں ہے۔ لوگوں کے ذہنوں میں یہی خیال آتا ہے کہ یہ گاؤں سومرو برادری کا ہے، ایسا ہرگز نہیں ہے۔ اس گاؤں میں کوئی سومرو نہیں رہتا۔ سومرو خان ہمارے بڑے تھے، ان کا نام ہی سومرو خان تھا۔‘
ان کے مطابق: ’لوگوں کو اس بات کا علم ہے کہ میروں کے دور میں بعض دیہات کو ٹنڈو کے نام سے جانا جاتا تھا تو اس وجہ سے اس گاؤں کا نام ٹنڈو سومرو ہے۔ 1988 میں ہم سب گاؤں والوں نے ایک اتحاد قائم کیا تھا۔ اس دور میں سندھ کے اندر ڈاکوؤں کا راج تھا۔ لوگ دیہات کو چھوڑ کر شہروں کی طرف ہجرت کر رہے تھے۔ اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے سب نے مل کر فیصلہ کیا کہ ہم سب نے گاؤں نہیں چھوڑنا۔ ہم نے پھر گاؤں کے لوگوں کو اکٹھا کیا اور ہم مل کر ڈاکوؤں سے لڑے، جس میں ہمارے بھی کچھ لوگ مارے گئے۔‘
اس گاؤں میں صفائی ستھرائی کا نظام بہتر بنانے کے لیے جگہ جگہ کوڑے دان لگائے گئے ہیں جبکہ بجلی کے کھمبوں پر لکڑی کے باکس بنائے گئے ہیں تاکہ بارش کے دنوں میں لوگوں اور مویشیوں کو کرنٹ لگنے سے بچایا جا سکے۔
مزید یہ کہ اس گاؤں کے لوگ انتظامات چلانے کے لیے قائم کمیٹیوں کو اپنی حیثیت کے مطابق آمدن سے ایک حصہ جمع کرواتے ہیں، جس میں بڑے زمین دار کے ذمے بڑی قیمت دینا لازمی ہے۔
اس گاؤں میں بچوں کے لیے سکول، کمپیوٹر لیب، پانی کے فلٹر پلانٹ، ہسپتال، لائبریری سمیت صفائی ستھرائی کا بہترین نظام موجود ہے، جو اس کے ’ماڈرن ولیج‘ یعنی جدید گاؤں کہلانے کی وجہ ہے۔
0 Comments
Post a Comment