اسٹنگ آپریشن کی قانون اور صحافت کی نظر میں کیا حیثیت ہے ۔۔۔۔؟ تالیف :حافظ محمد قیصر

صحافت میں اسٹنگ آپریشن کی اصطلاح
پاکستانی صحافت میں آجکل اسٹنگ آپریشن کی اصطلاح ہرزبان زدعام ہے اور آئے روز اسٹنگ آپریشن کی پرتشدد ویڈیوز بھی موصول ہوتی رہتی ہیں آج اسٹنگ آپریشن کا تھوڑا مطالعہ کیا تو کچھ ایسے حقائق سامنے آئے جو نوک قلم کرنے کوضروری سمجھا۔

بعض تحقیقی مقالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ’اسٹنگ‘ کا لفظ1930 میں امریکی عام بول چال سے مقبول ہوا، جس کو ’دھوکہ دہی‘ سے انجام پانے والے عمل کے معنوں میں استعمال کیا جاتا رہا۔

اسٹنگ آپریشن‘ ایک عالمی اصطلاح ہے تاہم یہ اب پاکستان میں بھی ایک عام لفظ بن چکا ہے اور عوام کی اکثریت اس لفظ سے آشنا تو ہے، لیکن اس کا اصل مفہوم اب بھی کئی لوگوں کے لیے مبہم ہے۔

اس کا ثبوت ہمیں اس بات سے ملتا ہے کہ دو روز قبل جب ایک پاکستانی نجی ٹی وی چینل کے میزبان ایک ادارے کے کچھ اہلکاروں کی جانب سے تشدد کا شکار ہوئے تو متعلقہ چینل نے کہا کہ ’میزبان اپنے اسٹنگ آپریشن کے دوران تشدد کا نشانہ بنائے گئے۔‘

عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ ’اسٹنگ آپریشن‘ کی اصطلاح کو 1973 میں مقبولیت ایک انگریزی سپر ہٹ فلم ’دی اسٹنگ‘ سے حاصل ہوئی، جس میں دو دھوکہ باز آدمی لوگوں کو بے وقوف بنا کر ان سے رقم بٹورتے تھےاس فلم کو عوام میں اتنی پذیرائی ملی کہ بعد ازاں اس کو دس آسکر ایوارڈزبھی ملے۔

دی اسٹنگ فلم کے تین سال بعد ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں 28 فروری 1976 کو آفیسر لیفٹیننٹ رابرٹ آرسکاٹ نے واشنگٹن ڈی سی کے محکمہ پولیس میں ’تھیفٹ سکواڈ‘ کے ساتھ مل کر ڈی سی میں غیر قانونی طور پر سرکاری وغیر سرکاری چوری شدہ سامان کو فروخت کرنے والےمافیاکو بے نقاب کرنا شروع کیا۔

اس مقصد کی خاطر رابرٹ نے اس علاقے کی مشہور ’کے‘ اسٹریٹ میں ایک نقلی دفتر بھی کھول لیاجہاں بعدازاں ایف بی آئی بھی ان کے ساتھ شامل ہوئی۔

 یوں اس ٹیم نے چوروں اور ڈاکوؤں کو پکڑنے کے لیے اپنی مشترکہ مہم کے لیے ’اسٹنگ آپریشن‘ کا لفظ استعمال کرتے ہوئے خود کو نقلی مافیا ظاہر کیا، جس کی تفصیل کافی طویل اور دلچسپ ہے۔

 تحقیقی مقالوں سے یہ بات تو مسلم ہے کہ ’اسٹنگ‘ کا لفظ 1930 میں امریکی عام بول چال سے مقبول ہوا، جس کو ’دھوکہ دہی‘ سے انجام پانے والے عمل کے معنوں میں استعمال کیا جاتا رہا اب پاکستانی صحافت میں ’اسٹنگ آپریشن‘ کی اصطلاح کے استعمال کی تاریخ نامعلوم ہے، لیکن دنیا کے مختلف ممالک کے میڈیا اداروں میں اس تکنیک کے ذریعے کرپشن کے کیسز کو بے نقاب کرنا موجودہ دور میں عام ہے۔

 ایک ہندوستانی مقالےکے مطابق ہندوستان کے برعکس امریکہ، برطانیہ اور کینیڈا جیسے ممالک میں اسٹنگ آپریشن کے ذریعے معلومات حاصل کرنے کا طریقہ کار مختلف ہے۔’ان ممالک میں اسٹنگ آپریشن میں قانونی تکنیک اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد سے معلومات حاصل کی جاتی ہیں۔‘

جنوبی ایشائی خطے کے حوالے سے ہندوستانی مقالے دعوی کرتے ہیں کہ یہاں کے میڈیا میں ’اسٹنگ آپریشن‘ کا آغاز انڈیا کے ایک ویب سائٹ ’تہلکہ‘ سے 2000 میں اس وقت ہواجب اس ویب سائٹ کے لیے کام کرنے والے دو صحافیوں نے ’مفاد عامہ‘ کی خاطر سرکاری اداروں میں کرپشن کی تحقیقات کرنے کے لیے ان کی خفیہ ریکارڈنگ شروع کی۔

اگرچہ اس کام میں انہیں آغاز میں کافی شہرت اور پیسہ ملا لیکن جب سرکاری انکوائری شروع ہوئی توصحافیوں پر الزام لگا کہ انہوں نے غیر قانونی طور پردھوکے سے معلومات لینے کی کوشش کی ہے۔

پٹیالہ پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ وکالت کی پروفیسر اپنے ایک آن لائن تحقیقی مقالے میں لکھتی ہیں کہ ’متذکرہ ویب سائٹ کے کیس میں انڈیا کے سنٹرل بیورو آف انوسٹی گیشن نے سپریم کورٹ سے درخواست کی تھی کہ اگر کوئی شہری ’مفاد عامہ‘ کے لیے ’سٹنگ آپریشن‘ کرنا چاہے تو ان افراد کو پابند بنایا جائے کہ وہ کسی ایسے آپریشن سے قبل قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مطلع کرکے ان کی اجازت حاصل کریں۔ ’ورنہ یہ افراد اور ادارے اپنی ذاتی مفاد اور کمرشل مقاصد کے لیے بدنظمی پھیلائیں گے۔‘

مقالہ نگار لکھتی ہیں کہ ’اکثر ٹی وی چینلز ریٹنگ کے چکر میں اورکچھ نیا دکھانے کی دھن میں ’اسٹنگ آپریشن‘ کرتے ہیں، ‘جو کہ مفاد عامہ سے زیادہ عوام کو تفریح دینے کی ایک کوشش ہے۔‘

پاکستانی صحافت میں اسٹنگ یا صحافتی چھاپوں کا سلسلہ پرنٹ میڈیا میں پہلے سے پایا جاتا تھا لیکن جنرل مشرف کی حکومت میں جب الیکٹرانک میڈیا کا آغاز ہوا تو عوام کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانے کے لیے ٹی وی چینلز پر سٹنگ آپریشن طرز کے پروگرام سامنے آنے لگے۔

ان پروگراموں میں کبھی خفیہ تو کبھی ظاہری کیمرے کا استعمال کرتے ہوئے کرپشن اور دھوکہ دہی کے واقعات کو عوام کے سامنے لایاجاتا رہا ہے۔

سرکاری دفاتر عوام کے پیسے پر چلتے ہیں، لہذا قانوناً ایسے دفاتر کی کوئی بھی چیز مخفی نہیں ہونی چاہیے لیکن دوسری جانب کسی کی شخصی آزادی کو نقصان پہنچانا، اس کی خلوت میں مداخلت، یا اجازت کے بغیر اس کی ویڈیو بناکر عدالت کے فیصلے سے قبل ہی اس کا میڈیا ٹرائل کرنا قانون کی رو سے ایک غیر قانونی عمل ہے۔

قانون کے مطابق ہر ملزم کو یہ حق حاصل ہے کہ اس کا غیر متعصبانہ اور غیرجانبدارانہ مقدمہ چلےکیونکہ قانون کی نظرمیں وہ تب تک بےگناہ ہے جب تک اس پر جرم ثابت نہ ہو۔

قانونی ماہرین کے مطابق کسی بھی شخص کو عدالت کے کٹہرے میں کھڑا ہونے سے پہلے اس کو ملزم قرار دیناعوام اور حکام کی نظر میں اسے مجرم ثابت کرنا نہ صرف ایک غیر قانونی عمل ہے بلکہ آئین کے تحت کسی بھی ملک کے شہری کو حاصل حقوق کی خلاف ورزی بھی تصور کی جاتی ۔

جہاں پر پاکستان پینل کوڈ کے دفعہ 19 میں اظہار رائے اور پریس کی آزادی کا ذکر ہےتو وہیں آرٹیکل 14 میں کسی شخص کی عزت کو مجروح کرنےاس کی پرائیویسی میں مداخلت اور کسی شخص سے ثبوت حاصل کرنے کے لیے اس کو اذیت پہنچانے کا بھی ذکرموجود ہےفیصلہ سنانا عدالت کاکام ہے

بلکہ بعض لوگوں پر الزام کے باوجود وہ بعدازاں عدالتوں سےبری ہوجاتے ہیں صحافت میں انوسٹیگیٹو جرنلزم کی اصطلاح موجود ہے جس میں ایک صحافی معلومات اکھٹی کرتا ہے اور اس کی تصدیق کر کے ایک متوازی رپورٹ پیش کرتا ہے۔‘

اسٹنگ آپریشن کی اصطلاح کو اب تک ملٹری میں بھی کچھ زیادہ حوصلہ افزائی نہیں ملی ہے، توکیونکر ہوسکتا ہے کہ صحافت میں اس کو کوئی جگہ ملے۔ماسوائے جان کوخطرے کے صحافی کسی بھی حال میں اپنی شناخت خفیہ نہیں رکھتا۔ وہ خفیہ کیمرے سے کسی کی ریکارڈنگ ، آڈیو ریکارڈنگ یااس کی تصویر نہیں لے سکتا نہ ہی کسی کی پرائیویسی میں مداخلت کر سکتا ہے۔