وہ 10 اگست 1984 کو پیدا ہوئیں - انہیں بچپن سے ہی پڑھائی کا بہت شوق تھا مگر ایک موروثی مرض نے ان کی آنکھوں
کی بینائی چھیننا شروع کردی اور وہ 13 سال کی عمر میں ہی دیکھنے جیسی عظیم نعمت سے محروم ہوگئیں۔
ان کے والدین اپنی بیٹی سے بے پناہ پیار کرتے تھے، انہوں نے اپنی بیٹی کی حوصلہ افزائی کی اور عزیز جہاں ٹرسٹ اسکول سے ابتدائی تعلیم دلوائی۔ انہوں نے بی اے کا امتحان انگلش لٹریچر میں فرسٹ ڈویژن میں کنرڈ کالج فار وومن یونیورسٹی سے پاس کیا اور وہیں سے اعلی تعلیم مکمل کرنے کے بعد سی ایس ایس کا امتحان پاس کرکے اپنے ملک کی خدمت کا خواب دیکھا۔ اس خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لیے انہیں بہت جدوجہد کرنی پڑی۔
سی ایس ایس کے امتحانات کا انعقاد کروانے والے فیڈرل پبلک سروس کمیشن (ایف پی ایس سی) نامی ادارے نے کمپیوٹر کے ذریعے ان کا امتحان لینے سے انکار کردیا۔ تاہم ان کی کاوشیں رنگ لائیں اور 2005 میں صدرِ پاکستان کی طرف سے ایک آرڈیننس منظور ہوا جس میں نابینا افراد کو کمپیوٹر کے ذریعے امتحان دینے کی اجازت دے دی گئی۔
اسی قانون کے تحت انہوں نے سی ایس ایس 2007 کا امتحان دیا اور انہوں نے مجموعی طور پر چھٹی اور خواتین میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ اس کے بعد جب ان کی تعیناتی کا مرحلہ آیا تو ایف پی ایس سی نے صرف 4 گروپس (اکانٹس، کامرس، انفارمیش اور پوسٹل) میں تعیناتی کا آپشن دیا۔ مگر وہ تو فارن سروس میں جانا چاہتی تھیں، جس کا یہاں کوئی ذکر ہی نہیں تھا۔
انٹرویو کے دوران پینل کی طرف سے بھی یہ سوال کیا گیا کہ، 'کیا وہ ان کی تعیناتی کے لیے پیش کیے گئے گروپس سے مطمئن ہے؟' تو انہوں نے واضح جواب دیا کہ نہیں، میں مطمئن نہیں ہوں۔ مقابلے کے امتحان کے بعد حاصل کردہ پوزیشن کی بنا پر مجھے گروپ میں تعینات کیا جائے'۔
ان کی درخواست کو اس وقت کے وزیرِاعظم نے منظور کرلیا۔ اس طرح وہ 2009 میں پاکستان کی پہلی قوتِ بینائی سے محروم سفارت کار بن گئیں۔ آج کل وہ سیکریٹری برائے انسانی حقوق جنیوا، اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے مستقل مشن کے لیے خدمات سرانجام دے رہی ہیں اور ہم انہیں 'صائمہ سلیم' کے نام سے جانتے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 76ویں اجلاس کے موقعے پر انہوں نے پاکستان کے خلاف بھارتی الزامات کا جواب بھرپور طریقے سے دیا۔ جنرل اسمبلی میں پہلی بار کسی پاکستانی نے 'بریل' کے ذریعے پڑھ کر جواب دیا۔ بے شک پاکستان کو صائمہ سلیم جیسی باہمت خاتون پر فخر ہے۔ انہیں پاکستان کی 'ہیلن کیلر' بھی کہا جاسکتا ہے کہ جنہوں نے جسمانی معذوری کو اپنی کامیابی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننے دیا۔
ہمیں ایسے رول ماڈلز کی تشہیر ملکی و غیر ملکی سطح پر کرنی چاہیے تاکہ دیگر لوگوں کا بھی حوصلہ بڑھے۔ صائمہ سلیم کی تعلیم کے ساتھ لگن جاری رہی اور 2019 میں انہوں نے ایل ایل ایم کی ڈگری بین الاقوامی قانون (اسپیشلائزیشن اِن انٹرنیشنل ہیومن رائٹس لا اینڈ انٹرنیشنل ہیومنٹیرین لا) میں یونیورسٹی آف جنیوا (سوئٹزرلینڈ) سے حاصل کی۔
اس سے پہلے وہ 2012 میں فل برائٹ اسکالر شپ پر جارج ٹان یونیورسٹی آف فارن سروس بھی گئیں۔ وہ لکھاری اور موٹیویشنل اسپیکر بھی ہیں۔ انہیں خواتین کے عالمی دن کے موقعے پر فاطمہ جناح گولڈ میڈل اور بہترین تعلیمی کارکردگی پر قائدِاعظم گولڈ میڈل سے بھی نوازا گیا۔
ان کے بھائی یوسف سلیم پاکستان کے پہلے قوتِ بینائی سے محروم جج ہیں۔ ان بہن بھائیوں نے عزم و ہمت کی ایک مثال قائم کی ہے۔ انہوں نے ثابت کیا ہے کہ اگر ارادے پختہ ہوں تو کسی بھی حال میں منزل پائی جاسکتی ہے۔ ان روشن مثالوں کو معاشرے کے سامنے رکھا جائے تاکہ تعلیم کی اہمیت سب کو معلوم ہوتی رہے۔
یقینا تعلیم ہی وہ واحد کنجی ہے جس سے ہم تیز ترین ترقی کا در کھول سکتے ہیں۔
بشکریہ: مہتاب حسن
0 Comments
Post a Comment