امریکہ ہماری حکومت کو غیر مستحکم کرنے سے باز رہے: طالبان کی تنبیہ

کراچی (ویب ڈیسک)امریکہ اور طالبان کے درمیان قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہفتے کو مذاکرات کا پہلا دور ایک ایسے وقت میں مکمل ہوا جب ایک دن قبل ہی قندوز میں شعیہ برادری کی ایک مسجد میں ہونے والے بم دھماکے کے بعد ملک پر طالبان حکومت کی گرفت کے حوالے سے سوالات کھڑے ہو گئے ہیں۔

امریکہ اور طالبان کے درمیان قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہفتے کو مذاکرات کا پہلا دور ایک ایسے وقت میں مکمل ہوا جب ایک دن قبل ہی قندوز میں شعیہ برادری کی ایک مسجد میں ہونے والے بم دھماکے کے بعد ملک پر طالبان حکومت کی گرفت کے حوالے سے سوالات کھڑے ہو گئے ہیں۔

ایک طرف جہاں قندوز دھماکے میں ہلاک ہونے والوں کے خاندان ان کی تدفین کر رہے تھے، وہیں دوحہ میں طالبان اور امریکی وفد بات چت کی میز پر تھے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق طالبان کے وفد نے امریکہ کو ان کی حکومت کو غیر مستحکم کرنے سے خبردار کرتے ہوئے کہ بتایا کہ ان کی حکومت کو کمزور کرنا لوگوں کے لیے مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔

قندوز میں جمعے کو ہونے والے دھماکے میں درجنوں نمازی زخمی بھی ہوئے تھے جس کا دعوی طالبان کے حریف گروپ داعش نے کیا تھا جنہوں نے طالبان کے حکومت میں آنے کے بعد افغانستان میں اپنی کارروائیاں تیز کر دی ہیں۔

دوحہ میں ہفتے کو مذاکرات کے پہلے دور کے بعد طالبان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی نے افغان سرکاری نیوز ایجنسی بختار کو بتایا: ہم نے انہیں واضح طور پر بتایا کہ افغانستان میں حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کسی کے لیے بھی مناسب نہیں ہے۔

مذاکرات کا دوسرا دور آج (اتوار) کو دوحہ میں ہی ہو گا۔

دو روزہ مذاکرات شروع ہوتے ہی قندوز میں ہونے والی تباہی سے افغانستان سوگ میں ڈوبا ہوا ہے۔

شہر کے قبرستان کے ایک گورکن نے اے ایف پی کو بتایا کہ انہوں نے 62 لاشوں کو دفنایا ہے۔ مقامی رپورٹس کے مطابق دھماکے میں مارے جانے والوں کی حتمی تعداد ایک سو تک ہو سکتی ہے۔

داعش کی علاقائی شاخ خراسان نے افغانستان میں شیعہ برادری کو بارہا نشانہ بنایا ہے۔ یہ طالبان کی طرح ایک سنی اسلام پسند گروپ ہے لیکن دونوں ایک دوسرے کے سخت مخالف ہیں۔

داعش خراسان نے کہا کہ یہ حملہ ایک ایغور خودکش حملہ آور نے انجام دیا ہے۔

شعیہ برادری سے تعلق رکھنے والے 42 سالہ زمرائی مبارک زادہ نے اے ایف پی کو بتایا کہ ہم واقعتا تکلیف میں ہیں۔

داعش کے مہلک حملے طالبان کی حکومت کو مستحکم کرنے کی کوششوں کو کمزور کر رہے ہیں۔

قندوز میں طالبان کے سکیورٹی سربراہ نے حملہ آوروں پر الزام لگایا کہ وہ شیعہ اور سنی برادری کے درمیان کشیدگی کو ہوا دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔

مولوی دوست محمد نے کہا کہ ہم اپنے شیعہ بھائیوں کو یقین دلاتے ہیں کہ مستقبل میں ہم ان کے لیے سکیورٹی فراہم کریں گے اور اس طرح کے واقعات دوبارہ پیش نہیں آئیں گے۔

اس حملے کی بین الاقوامی سطح پر مذمت کی گئی ہے۔ اقوام متحدہ کے سربراہ انتونیو گوتریش نے بھی مطالبہ کیا کہ مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔