تمام غیر قانونی عمارتیں مسمار کروا رہے ہیں، ایسا نہیں ہو سکتا کہ فوج کی غیر قانونی تعمیرات کو چھوڑ دیں:سپریم کورٹ
کراچی (ویب ڈیسک)پاکستان کی عدالت عظمی نے کہا ہے کہ کراچی میں تمام غیر قانونی عمارتیں مسمار کروا رہے ہیں اور ایسا نہیں ہو سکتا کہ فوج کی غیر قانونی تعمیرات کو چھوڑ دیں منگل کے روز سپریم کورٹ میں چیف جسٹس گلزار احمد اور جسٹس قاضی امین نے کنٹونمنٹ کی اراضی پر کمرشل سرگرمیوں کے خلاف کیس کی سماعت کی تو چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے کہا کہ فوج کی غیر قانونی تعمیرات کو چھوڑ دیا تو باقی کو کیسے گرائیں گے چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے کہا کہ ریاست کی زمین کا استحصال نہیں کیا جا سکتا، فوج جن قوانین کا سہارا لے کر کنٹونمٹ کی زمین پر کمرشل سرگرمیاں کرتی ہے، وہ غیر آئینی ہیں سپریم کورٹ نے اس حوالے سے سیکرٹری دفاع کی رپورٹ کو غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے کہا کہ کنٹونمنٹ کی تمام زمینیں اصل حالت میں بحال کرنا ہوں گی۔
یاد رہے کہ گذشتہ ہفتے بدھ کے روز کراچی میں غیر قانونی تجاوزات اور فلاحی مقاصد کے لیے الاٹ کی گئی زمینوں کے حوالے سے مقدمات کی سماعت کے بعد چیف جسٹس گلزار احمد نے اپنے حکم نامے میں قرار دیا تھا کہ کنٹونمنٹ کی زمینوں پر ہائوسنگ اور کمرشل سرگرمیاں کنٹونمنٹ ایکٹ 1924 اور لینڈ اکیوزیشن ایکٹ 1937 کی خلاف ورزی ہیں،سپریم کورٹ آف پاکستان نے کہا تھا کہ کنٹونمنٹ بورڈ کو وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے جو زمینیں الاٹ کی ہیں وہ صرف کینٹ مقاصد کے لیے ہیں اور وہاں کمرشل اور ہاسنگ منصوبے غیر قانونی ہیں،دوسری جانب جمعے کو سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں سیکرٹری دفاع پیش ہوئے تھے اور انھوں نے کہا تھا کہ مستقبل میں کنٹونمنٹ کی زمینیں دفاعی مقاصد کے علاوہ کسی کام کے لیے استعمال نہیں کی جائیں گی اور اس حوالے سے انھیں مسلح افواج کے سربراہان نے آگاہ کر دیا ہے۔
منگل کے روز اسلام آباد میں اس کیس کی سماعت کی دوران چیف جٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ فوج کے ساتھ قانونی معاونت نہیں ہوتی، وہ جو چاہتے ہیں کرتے رہتے ہیں، سمجھ نہیں آ رہی وزارت دفاع کیسے ان سرگرمیوں کو برقرار رکھے گی چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے پوچھا کیا کہ اٹارنی جنرل صاحب فوج کو قانون کون سمجھائے گا؟چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سینما، شادی ہال اور گھر بنانا اگر دفاعی سرگرمی ہے تو پھر دفاع کیا ہو گا؟انھوں نے کہا کہ صرف کراچی کا مسئلہ نہیں پورے ملک کا یہی حال ہے، کوئٹہ اور لاہور میں بھی دفاعی زمین پر شاپنگ مال بنے ہوئے ہیں۔
دوران سماعت چیف جسٹس گلزار احمد نے پوچھا کہ کیا سینما، شادی ہال، سکول اور گھر بنانا دفاعی مقاصد ہیں؟چیف جسٹس نے کہا کہ اعلی فوجی افسران کو گھر دینا دفاعی مقاصد میں نہیں آتا، فوج کو معمولی کاروبار کے لیے اپنے بڑے مقاصد پر سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیے اور اپنے ادارے کے تقدس کا خیال رکھنا چاہیے چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کنٹونمنٹ کی زمین دفاعی مقاصد پورا ہونے پر حکومت کو واپس کرنا ہوتی ہے۔
جسٹس قاضی امین نے کہا کہ فوجی سرگرمیوں کے لیے گیریژن اور رہائش کیلئے کنٹونمنٹس ہوتے ہیں اس موقع پر سیکرٹری دفاع نے عدالت کو بتایا کہ قانون کی خلاف ورزیوں کی نشاندہی کے لیے تینوں افواج کی مشترکہ کمیٹی بنا دی ہے عدالت نے کہا کہ کنٹونمٹس کی تمام زمین اصل حالت میں بحال کرنا ہو نگی، فوج کے تمام قواعد اور قوانین کا آئین کے مطابق جائزہ لے گےعدالت عظمی نے سیکرٹری دفاع سے چار ہفتے میں عملدرآمد رپورٹ طلب کر لی ہے۔
بشکریہ بی بی سی
0 Comments
Post a Comment