صوبہ سندھ میں پان کے پتے اگانے کا رجحان بڑھنے لگا،زمینداروں نے روایتی اجناس کو خیرباد کہہ کر پان کے پتوں کی کاشت کو اپنا ذریعہ معاش بنا لیا ہے
کراچی(ویب ڈیسک)صوبہ سندھ میں پان کے پتے اگانے کا رجحان بڑھنے لگا،زمینداروں نے روایتی اجناس کو خیرباد کہہ کر پان کے پتوں کی کاشت کو اپنا ذریعہ معاش بنا لیا ہے تفصیل کے مطابق سندھ کے کاشت کار ٹماٹر اور سبز مرچ اگایا کرتے تھے، مگر دو سال قبل انہوں نے اپنی زرعی زمین پر پان کے پتے اگانا شروع کردیے ہیں ،سندھ کے شہر ٹھٹھہ کے علاقوں میرپور ساکرو اور کیٹی بندر میں چند زمینداروں نے روایتی اجناس کو خیرباد کہہ کر پان کے پتوں کی کاشت کو اپنا ذریعہ معاش بنا لیا ہے۔
ان اجناس میں سری لنکا میں پایا جانے والا پان کا پودا سیلون، بھارت میں پایا جانے والا پودا سانچی اور مقامی طور پر پیدا کی جانے والی پان کی اقسام بھی شامل ہیںایسے ہی ایک کاشت کارکا کہنا تھا کہ وہ سکول میں تھے جب بڑے بھائی حاجی علی اصغر نے پان اگانے کا کام شروع کیا، لیکن 1995 سے 2014 تک یہ کام کرنے کے باوجود اس میں آمدن ہی نہیں ہورہی تھی تو انہوں نے کاشت ختم کردی تھی انکا مزید کہنا تھا کہ دو سال پہلے رمضان میں جب وہ پان خریدنے منڈی گئے تو وہاں پان کے پتوں کی قیمت پانچ ہزار روپے سے چھ ہزار روپے فی کلو تک تھی قیمت سننے کے بعد انہوں نے 252 پودوں کا ایک فارم تیار کیا اور کاشت شروع کر دی۔
ہمالیہ کے پہاڑوں سے ہوتے ہوئے دریائے سندھ ضلع ٹھٹھہ میں آکر سمندر میں بہتا ہے اس علاقے میں جہاں کسی دور میں دریا ٹھاٹھیں مارتا تھا اب ڈیموں اور بیراجوں کے باعث وہاں پانی کا بہاو کم ہوگیا ہے،جس کی وجہ سے مقامی لوگوں نے روایتی فصلوں کے بجائے کم پانی والی فصلیں کاشت کرنا شروع کردی ہیںان فصلوں میں پان کے پتے کی کاشت بھی شامل ہے ایک کاشتکار کے مطابق اس وقت میرے پاس ہزار پودے ہیں جن میں 120 پودے میں نے خود تیار کیے ہیں ان کو زیادہ گرمی نہیں چاہیے، دھوپ زیادہ آئے گی تو پتے پیلے ہوجاتے ہیںتو پھر مارکیٹ میں ان کی کوئی ویلیو نہیں رہتی جب سبز رنگ کے ہوتے ہیں تو پھر ان کے ریٹ صحیح ملتے ہیں۔
ملک بھر میں پان بہت شوق سے کھایا جاتا ہے، یہ خصوصا شادی بیاہ یا موسیقی کی محفلوں میں خاص طور پر تیار کیا جاتا ہے، تاہم اس کو کراچی میں زیادہ پسند کیا جاتا ہے، اسی لیے پان کے پتوں کی سب سے بڑی منڈی بھی کراچی میں ہے جہاں کاشتکار پان کے پتے بیچنے کے لیے جاتے ہیںدوسری جانب پان کی کاشت کرنا ایک طرف گٹکے کی وجہ سے مشکل ہو رہی ہے اور سری لنکا، بھارت اور تھائی لینڈ جیسے ممالک سے پان کے پتوں کی درآمد کی وجہ سے بھی انہیں منڈی میں کم قیمت مل رہی ہے کاشتکاروں کا کہنا تھاکہ حکومت نہ صرف گٹکا بنانے اور اس کی فروخت پرعائد پابندی پرسختی سے عملدرآمد کروائے بلکہ دیگرممالک سے پان کے پتوں کی درآمد کو بھی ختم کرے۔
0 Comments
Post a Comment