یہ غریب طبقے کا کوکنگ آئل ہےایران اس کوکنگ آئل (خوردنی تیل) کو اپنے ملک سے سمگل ہونے سے روکتا رہا ہے لیکن یہ غیر قانونی راستوں کے ذریعے پاکستان پہنچ جاتا ہے۔ اس وقت اس تیل کی بہت مانگ ہے کیونکہ پاکستان میں کوکنگ آئل کی قیمتیں بڑھ چکی ہیں تو کافی لوگوں کو فائدہ مل جاتا ہے۔
اس کوکنگ آئل کے بارے میں مقامی مینیوفیکچررز بھی حکومت کو متنبہ کرتے ہوئے یہ کہہ چکے ہیں کہ یہ وضع کردہ معیار کے مطابق نہیں اور اس کا استعمال لوگوں کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ تاہم اس رپورٹ کے شائع ہونے تک حکومت کی جانب سے اس حوالے سے کوئی خاطر خواہ جواب موصول نہیں ہو سکا ہے۔
ایرانی سرحد سے پاکستان میں اشیائے خورد و نوش آنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ مگر رواں برس ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں زبردست کمی کے باعث ملک میں خوردنی تیل یعنی کوکنگ آئل کی قیمت بڑھی ہے اور اسی وجہ سے سمگل شدہ کوکنگ آئل کی مانگ میں بھی بہت اضافہ ہوا ہے۔
پاکستان میں دستیاب کوکنگ آئل کے مقابلے میں اس کی قیمت میں نمایاں کمی ہے۔
کراچی میں فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے ایک ذمہ دار کے مطابق ’کراچی میں اس وقت فی لیٹر کوکنگ آئل کی قیمت 300 روپے ہے جو دکانوں پر 350 سے 450 روپے فی لیٹر میں فروخت ہو رہا ہے۔ لیکن ایران سے گوادر کے راستے آنے والا کوکنگ آئل 191 روپے فی لیٹر ملتا ہے۔ جس کی وجہ سے مارکیٹ میں اس کی بہت مانگ ہے۔
ایرانی کوکنگ آئل پاکستان پہنچتا کیسے ہے۔۔۔۔۔؟
ایرانی سرحد سے کشتیوں اور خشکی کے راستے یہ تیل پاکستان آتا ہے۔ جبکہ گوادر کے ہی ایک تاجر نے یہ دعویٰ کیا تھاکہ ’ایران سے پاکستان لاتے وقت سرحد پر اس کوکنگ آئل کے ایک کین کی قیمت ایک ہزار روپے کے حساب سے وصول کی جاتی ہے، اس سے آپ اندازہ لگا لیں کہ سرحد سے اندر آنے پر مختلف چیک پوسٹوں پر ایف سی، فوج، کوسٹ گارڈ اور کسٹم والے موجود ہوتے ہیں۔ فی چیک پوسٹ ہزار روپے کے حساب سے معاملہ کہاں تک پہنچتا ہے۔
بلوچستان کے کیچ، پنجگور اور گوادر ڈسٹرکٹ کو اس وقت 75 فیصد بجلی بھی ایران سے ملتی ہے لیکن 40 برس سے چلنے والے اس تمام سلسلے کو حکومت سرکاری سطح پر کیوں تسلیم نہیں کر رہی ہے۔۔۔۔؟
بلوچستان حکومت کے ترجمان کے مطابق اس وقت پاکستان ایران سرحد پر مختلف سطحوں پر تجارت کو سرکاری سطح پر ایک مارکیٹ کی شکل میں تسلیم کیا جا رہا ہے۔
اس کے بارے میں بلوچستان حکومت کے سیکریٹری انڈسٹریز اینڈ کامرس کے مطابق ’اس وقت ہماری کوشش یہ ہے کہ واشُک، چاغی، نوشکی، پنجگور، تربت اور گوادر میں باڑ لگانے کی وجہ سے زندگی مشکل میں آئی ہے، انھیں کسی طرح سے ریلیف دیا جائے۔ رواں سال اپریل میں دونوں ممالک یعنی ایران اور پاکستان نے سرحد کے دونوں اطراف لوگوں کو ریلیف مہیا کرنے کے لیے معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔‘
لیکن ان علاقوں میں رہنے والوں کا کہنا ہے کہ جب تک سرحد پر باقاعدہ مارکیٹ کا قیام باضابطہ طور پر شروع نہیں ہو جاتا تب تک غیر قانونی راستوں سے سامان لوگوں تک پہنچانے کا سلسلہ چلتا رہے گا۔
ایران سے آنے والے کوکنگ آئل برانڈز میں سے ایک زمانے میں ’لادن‘ تیل اور ’گلناز‘ مشہور ہوتے تھے گلناز اب بھی بازاروں میں باآسانی مل جاتا ہے جبکہ اس کوکنگ آئل کے ایک لیٹر سے لے کر تین لیٹر کے پیکٹ گوادر کی مارکیٹ میں دستیاب ہیں۔
اس وقت مسئلہ یہ ہے کہ ایک طرف اس کوکنگ آئل کو بیچنے سے گوادر اور بلوچستان کے سرحدی علاقوں کے گھر چل جاتے ہیں۔ لیکن اس کو سرکاری سطح پر تسلیم کرنے سے اس کاروبار کو مزید وسیع کیا جا سکتا ہے۔
ایرانی کوکنگ آئل کی مانگ کہاں ہے۔۔۔۔؟
اس وقت ایرانی کوکنگ آئل کی سب سے زیادہ مانگ کراچی میں ہے اور یہ دو طریقوں سے استعمال ہوتا ہے۔ 'یعنی یہ کریانے کی دکانوں پر بھی جا رہا ہے اور بڑے پیمانے پر ہوٹلوں میں بھی استعمال ہوتا ہے یہ بلوچستان کے شہروں سے ہوتا ہوا حب پہنچتا ہے جہاں سے اسے بسوں اور سوزوکی وین کے ذریعے کراچی بھیجا جاتا ہے۔‘
جبکہ کراچی میں پہنچتے ہی اس کوکنگ آئل کو مختلف دکانوں پر فروخت کیا جاتا ہے۔ ناصر رحیم نے بتایا کہ 'اس سے پہلے اس کوکنگ آئل کو صرف کراچی کے علاقے لیاری اور غریب علاقوں میں موجود دکانوں میں بھیجا جاتا تھا۔ لیکن اس بار یہ فیکٹریوں میں بھی جا رہا ہے جہاں اسے پلاسٹک کے پیک میں سِیل کر کے کراچی کی صدر مارکیٹ میں کم قیمت پر فروخت کیا جاتا ہے۔‘
حال ہی میں ملک میں کوکنگ آئل بنانے والے مقامی پروڈیوسرز نے حکومت کو متنبہ کیا ہے کہ سستے ایرانی خوردنی تیل کی وجہ سے پاکستان کی کوکنگ آئل انڈسٹری کو نقصان پہنچ رہا ہے۔
0 Comments
Post a Comment