منشیات سے منسلک افراد کا کہنا ہے کہ ہم طالبان کوافیون پر اس وقت تک پابندی نہیں لگانے دیں گے جب تک بین الاقوامی برادری افغان لوگوں کی مدد نہیں کرتی،ورنہ تو ہم بھوکے رہ جائے گے، اپنے خاندانوں کو کیا کھلائیں گے۔۔۔؟
میتھ کی تجارت کرنے والے ایک شخص نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ افغانستان کے اس جنوب مغربی ضلع میں تقریبا 500 عارضی فیکٹریاں روزانہ کی بنیاد پر 3000 کلوگرام کرسٹل میتھ تیار کرتی ہیںمنشیات کے اس نئے دھندے کی پیچھے حال ہی میں ہونے والی وہ دریافت ہے جس کے مطابق ایفیڈرا نامی ایک عام اگنے والی بوٹی(جسے مقامی زبان میں اومان کہا جاتا ہے)میتھ کے بنیادی جزو ایفیڈرین کو بنانے کے لیے کام آ سکتی ہے ماضی میں طالبان کی جانب سے ایفیڈرا اگانے پر ٹیکس لگایا جاتا تھا۔ لیکن حالیہ دنوں میں طالبان کی جانب سے اس کی کاشت پر پابندی کا اعلان کیا گیا لیکن اس فرمان کی زیادہ تشہیر نہیں ہوئی۔
دھندا چمک اٹھا ہے
فی الحال طالبان کی جانب سے میتھ بنانے والی فیکٹریوں کو کھلم کھلا کام کرنے سے نہیں روکا جا رہا ہے اس دھندے میں شامل ایک شخص نے ہمیں ہنس کر بتایا کہ ایفیڈرا پر پابندی سے کاروبار مذید چمک اٹھا ہے کیوں کہ میتھ کی قیمتیں راتوں رات دگنی ہو چکی ہیں جب کہ ان کے پاس اس بوٹی سے بھرے کئی گودام موجود ہیں جنہیں وہ مستقبل میں استعمال کر سکتے ہیں افغانستان میں منشیات کی تجارت پر ڈاکٹر ڈیوڈ مینسفیلڈ بہت عرصے سے کام کر رہے ہیں انھوں نے سیٹلائٹ سے فراہم کردہ تصاویر کے ذریعے میتھ بنانے والی کئی لیبارٹریوں اور فیکٹریوں کا سراغ لگایا ہے ان کا کہنا ہے کہ طالبان کی جانب سے ایفیڈرا کی کاشت پر ایسے وقت میں پابندی لگائی گئی جب کسان فصل کاٹ چکے تھے اسی وجہ سے 'اس پابندی کے اصل نتائج اس وقت تک سامنے نہیں آئیں گے جب تک اگلے سال جولائی میں نئی فصل کی کاشت کا وقت نہیں ہو جاتا۔
جانتا ہوں یہ نقصان دہ ہے لیکن پیسہ کیسے کمائیں۔۔۔۔؟
جب سے طالبان نے ملک آزاد کیا،ہم بھی آزاد ہو گئے
اس وقت یہ کاروبار اتنا چمک رہا ہے کہ وہی منشیات ڈیلر جو پہلے خفیہ طور پر کرپٹ افغان اہلکاروں کو رشوت دے کر مال فروخت کرتے تھے اب کھلے عام بازاروں میں سٹال لگائے موجود نظر آتے ہیںایک ڈیلر نے مسکراتے ہوئے کہا کہ 'جب سے طالبان نے ملک آزاد کیا ہے، ھم بھی آزاد ہو گئے ہیںاس دعوے کے برعکس طالبان اب بھی اس معاملے میں محتاط ہیں۔ ہلمند صوبے میں طالبان نے افیون کے بڑے بازار میں ریکارڈنگ سے یہ کہہ کر روک دیا کہ یہ ممنوعہ علاقہ ہے جب سوال کیا گیاکہ آیا میڈیا کوریج پر پابندی کی وجہ وہ الزامات تو نہیں جن کے مطابق اس کاروبار سے چند طالبان خود منافعہ کما رہے ہیں تو طالبان کے مقامی ثقافتی کمیشن کے سربراہ حافظ راشد نے ناصرف انٹرویو ہی ختم کرنے کا کہا بلکہ دھمکی دی کہ اگر فوٹیج ان کے سامنے ضائع نہیں کی گئی تو کیمرے کو توڑ دیا جائے گاہلمند سے جڑے قندھار میں بھی ایسا ہی معاملہ ہوا جہاں پہلے تو بی بی سی کو افیون کے بازار میں ریکارڈنگ کی اجازت ملی لیکن بعد میں بتایا گیا کہ یہ ممکن نہیں ہو سکے گا۔
'ہم طالبان کو افیون پر پابندی نہیں لگانے دیں گے'
کابل میں طالبان کے ترجمان، بلال کریمی، نے میڈیا کو بتایا کہ اس وقت طالبان کسانوں کے لیے متبادل مواقع تلاش کر رہے ہیں جب تک ہم لوگوں کو کچھ متبادل فراہم نہیں کر لیتے ہم انہیں کیسے منع کر سکتے ہیں واضح رہے کہ طالبان کی پہلے حکومت کے دوران انھوں نے افیوں کی کاشت پر آخر کار پابندی لگا دی تھی لیکن امریکی افواج سے شکست کے بعد طالبان نے افیون کی کاشت پر ٹیکس لگا کر اسے آمدن کا ذریعہ بنا لیا تھا لیکن کھلے عام وہ اس حقیقت کو اب بھی تسلیم نہیں کرتے منشیات کے دھندے سے جڑے افراد کا کہنا ہے کہ اگر طالبان چاہیں تو وہ دوبارہ کامیابی سے پابندی لگا سکتے ہیں۔ لیکن ایسے لوگ بھی ہیں جن کا ماننا ہے کہ اب ایسا نہیں ہو گا ایک کسان نے بتایا کہ 'ان کی کامیابی کا راز ہی افیون ہے۔ ہم انہیں افیون پر اس وقت تک پابندی نہیں لگانے دیں گے جب تک بین الاقوامی برادری افغان لوگوں کی مدد نہیں کرتی ورنہ تو ہم بھوکے رہ جائیں گے، اپنے خاندانوں کو کیا کھلائیں گے۔۔۔؟ ڈاکٹر مینسفیلڈ کہتے ہیں کہ افغانستان کے معاشی بحران کی وجہ سے خوراک اور کاشت کاری سے منسلک اشیاء کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ کسانوں اور منشیات کے دھندے سے جڑے افراد کو اس کاروبار میں اضافے کی طرف لے جائے گا تاکہ وہ آمدن برقرار رکھ سکیں۔
معاشی بحران: میتھ کے ساتھ ساتھ ہیروئن کا کاروبار بھی عروج پر
ڈاکٹر مینسفیلڈ کا کہنا ہے کہ 2020 میں طالبان کو منشیات کے کاروبار سے 35 ملین ڈالر ٹیکس وصول ہوئے۔ 'پہلی بار جب طالبان برسر اقتدار آئے تھے تو ان کو منشیات پر پابندی لگانے میں چھ سال لگے، اس وقت صرف افیون کا معاملہ تھا۔' ان کا کہنا ہے کہ اس وقت افغانستان کی معاشی صورت حال دیکھتے ہوئے کسی قسم کی پابندی کو وہ لوگ ایک سزا کے طور پر دیکھیں گے جنھوں نے ان کی حمایت کی تھی طالبان کے ترجمان بلال کریمی کہتے ہیں کہ منشیات کا خاتمہ افغانستان اور دنیا دونوں کے ہی مفاد میں ہے اس لیے دنیا کو ان کی مدد کرنی چاہیے۔
'اب منشیات سستی مل رہی ہیں'
افغانستان میں بننے والی منشیات صرف بر آمد ہی نہیں کی جاتیں۔ ان کی کھپت مقامی طور پر بھی ہو رہی ہے جہاں افغان باشندوں کی ایک بڑی تعداد منشیات کی عادی ہوتی جا رہی ہے دارالحکومت کابل کی مصروف شاہراہوں کے قریب ہی سینکٹروں افراد چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں ہیروئن اور کرسٹل میتھ کا نشہ کرتے دکھائی دیتے ہیںان میں سے ایک نے بتایا کہ پہلے افغانستان میں میتھ ایران سے سمگل ہوتی تھی جس کے ایک گرام کی قیمت 1500 افغانی ہوا کرتی تھی۔ 'اب یہ افغانستان میں بننے کی وجہ سے سستی ہو گئی ہے اور ایک گرام 30-40 افغانی میں مل جاتا ہے اکثر اوقات طالبان ان کو اٹھا کر منشیات بحالی سینٹرز پہنچا دیتے ہیں۔ لیکن یہ پھر واپس آ جاتے ہیں۔ فی الحال ایسا لگتا ہے کہ منشیات کی مذید سپلائی افغانستان ہی نہیں دنیا بھر میں بڑھنے والی ہے۔
0 Comments
Post a Comment