پانچ سال پہلے، سفید کاغذ پر کالی روشنائی اور تھوڑے سے سرخ رنگ سے بنائی گئی سادہ سی تصاویر نے سٹاک ہوم سب وے پر مسافروں کو حیران کر دیا۔

ماہواری کو باعث شرم چیزوں سے نکالنےوالی حکمت عملی
سرنگ بانا، جسے سویڈن کے دارالحکومت کا سب وے کہا جاتا ہے، کو اکثر دنیا کی سب سے طویل گیلری بھی قرار دیا جاتا ہے، جس میں 109 کلومیٹر طویل سرنگ کے نظام کے ساتھ 100 سٹیشن میں سے 90 پر آرٹ کی نمائش ہوتی ہے۔

دہائیوں پرانے کام میں خواتین کے حقوق سے لے کر شمولیت اور جنگلات کی کٹائی تک کے مسائل اجاگر کیے گئے ہیں لیکن اکتوبر 2017 میں سلوسن سٹیشن پر ہونے والی نمائش نے بہت سے لوگوں کو حیران کر دیا۔

وہ کارٹونسٹ لیف سٹرومکسٹ کا کام تھا جنھیں شہر کے حکام نے منتخب کیا تھا اور یہ حقوق نسواں کی تاریخ میں ایک سنگ میل ثابت ہوا۔

ماہواری کو باعث شرم چیزوں سے نکالنےوالی حکمت عملی

ان فن پاروں کی خالق بتاتی ہیں کہ وہ تصاویر جن پر بہت زیادہ بحث چھڑی وہ آئس سکیٹرز کی تین مختلف تصاویر تھیں جن پر ماہواری کے دھبے تھے۔

یہ تصاویر پہلے ہی سٹرومکسٹ کی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتابوں میں سے ایک میں شائع ہو چکی تھیں’ذاتی طور پر، میرے لیے ماہواری ہمیشہ سے بہت، بہت تکلیف دہ اور شرمناک چیز رہی ہے۔ میں اس کے بارے میں کسی سے بات نہیں کر سکتی تھی’میں نے سوچا کہ اس کی چھان بین کرنا دلچسپ ہے جو کہ پورے معاشرے میں ہے۔ کسی ایسی چیز کے لیے شرمندگی کا احساس جو بہت قدرتی طور پر آدھی انسانیت کا تجربہ ہوتا ہے، بجائے اس کے کہ اسے کسی ذاتی نفسیاتی انداز میں بیان کیا جائے۔‘

خیال یہ تھا کہ سٹرومکسٹ کے خون آلود سکیٹرز ایک فرضی دنیا کی نمائندگی کرتی ہیں، ایک ایسا معاشرہ جہاں ماہواری سے گزرنے والے افراد بدنما داغ نہیں ہیں ان تصاویر نے مقامی اور عالمی میڈیا اور سوشل میڈیا پر ایک زبردست بحث چھیڑ دی۔

بانا سرنگ میں ایک خاتون نے بی بی سی کو بتایا، 'اُنھیں عوامی جگہ پر اس طرح رکھنا قدرے حیران کن تھا۔ یہ بد ذوقی ہے,ایک مرد کا کہنا تھا ’آپ اسے قدامت پسندی یا عدم برداشت کہیں گے لیکن یہ میرے لیے ناگوار ہے۔

کچھ لوگوں نے احتجاجاً ان فن پاروں پر رنگ پھینک دیا اور دائیں بازو کے کچھ اپوزیشن سیاست دانوں نے دلیل دی کہ ان کی عوامی نمائش ٹیکس کا غلط استعمال ہےلیکن کچھ کو یہ پسند آئے۔

سب وے پر ایک اور آدمی نے کہا 'میرے خیال میں وہ اچھا ہے اور تھوڑا چنچل بھی ہے،ایک خاتون کا کہنا تھا 'میرے لیے، وہ دلچسپ ہیں۔ یہ بہت فطری ہے۔ یہ بہت اچھا ہے۔ اس طرح کے اور بھی ہونے چاہییں۔'

ٹیمپون کو کیوں چھپائیں؟

والدین کو ملنے والی رخصت، بچوں کی سستی نگہداشت اور سیاست میں خواتین کی تاریخ کے باعث سویڈن کو باقاعدگی سے دنیا کے سب سے زیادہ حقوق نسواں دینے والے ممالک میں شمار کیا جاتا ہے،سب وے کے فن پر جھگڑا اس بات کی علامت تھا کہ وہاں بھی حیض سے متعلق قدیم ممنوعات ابھی تک نافذ ہیں۔

لیکن یہ اس بات کی علامت بھی تھی کہ چیزیں بدل رہی ہیں۔

سب وے میں نمائش نے دنیا کی توجہ حاصل کر لی، لیکن سٹرومکسٹ نے کچھ سال پہلے ہی ایک ریڈیو شو میں اس موضوع کو چھیڑا تھاان کا کہنا تھا کہ ’یہ کتنی عجیب بات ہے کہ ہم حیض کے بارے میں کھل کر بات نہیں کر سکتے اور یہ اتنا اہم کیوں ہے کہ جب ہم اپنے ٹیمپون تبدیل کرنے جاتے ہیں تو کوئی نہیں جانتا کہ ہم کیا لے کر جا رہے ہیں یہ ایک بہت مشہور پوڈ کاسٹ تھا جسے قدرے پرانی نسلوں کے لوگوں نے بھی سنا تھاسنہ 2010 کی دہائی کے وسط سے آخر تک، ایسا لگتا تھا کہ ماہواری ہر جگہ تھی۔ سویڈش نیشنل تھیٹر میں میوزیکل سے لے کر ماہواری سے متعلق فن کی نمائش تک ہر جگہ’یہ ہر جگہ دکھائی دینے لگی اور مصنوعات کی تشہیر کے طریقے میں بہت بڑی تبدیلی آئی اور زبان مکمل طور پر تبدیل ہو گئی، منظر اور الفاظ دونوں طرح۔‘

ماہواری کو باعث شرم چیزوں سے نکالنےوالی حکمت عملی

سنہ 2017 میں سینیٹری نیپکن کے لیے ایک اشتہاری مہم میں ماہواری کے خون کی علامت کے لیے سرخ مائع استعمال کرنے کی جرأت کی گئی تھی۔ اس سے پہلے کلینیکل نیلے رنگ کے مائع برسوں سے استعمال ہو رہے تھےاسے اشتہاری ایجنسی اے ایم وی بی بی ڈی او نے ایک سویڈش کمپنی ایسیٹی کے لیے بنایا تھا جو لوٹس اور نوسوٹراس جیسے بڑے عالمی برانڈز کے پیچھے ہےانھوں نے نوٹ کیا کہ تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ 74فیصد لوگ اشتہارات میں زیادہ ایماندارانہ نمائندگی دیکھنا چاہتے ہیں۔

کمرشل میں شاور میں ایک عورت کو بھی دکھایا گیا جس کی ران سے خون بہہ رہا تھا اور ایک مرد سینیٹری نیپکن خرید رہا تھاسویڈن میں پیریڈز کے بارے میں بات کرنا زیادہ عام ہے، یہاں تک کہ مردوں کے زیر اثر ماحول میں بھی۔

پہلا مصدقہ ’پیریڈ فرینڈلی‘ کام کا مقام گوتھنبرگ، فورزا فٹ بال میں سپورٹس ایپس کا دفتر تھا۔

سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کے لیے کمپنی کو ایک تنظیم مینسن کی طرف سے معائنے کے مرحلوں کا سلسلہ پاس کرنا پڑا، جو ماہواری کے حوالے سے جاری مہم کے دوران کیے گئےان میں مفت سینیٹری پیڈز اور ٹیمپون کی فراہمی اور اس بارے میں تربیت شامل تھی کہ کس طرح حیض دوسروں کے مقابلے میں کچھ کو زیادہ متاثر کر سکتا ہے۔

کمپنی کے سی ای او پیٹرک آرنیسن کا کہنا ہے کہ ’ہماری کمپنی کے ورکنگ گروپس میں سے ایک نے ایک رکن کے ماہواری کے مطابق کام میں تبدیلی کی کیونکہ اُنھیں احساس تھا کہ یہ زیادہ مؤثر ہو گا۔‘

’میرے خیال میں یہ ایک بہترین مثال ہے کہ کس طرح لوگوں کی ماہواری کے بارے میں علم کام کی جگہ پر نتائج کو مزید بہتر بنا سکتا ہےسٹرومکسٹ کی ڈرائنگ کی طرح اس منصوبے نے سویڈن کو تقسیم کر دیا،سویڈش روزنامہ ایکسپریسن کی سیاسی مبصر لنڈا نورڈلنڈ بی بی سی کو بتاتی ہیں، ’میں نہیں سمجھتی کہ میری ماہواری میرے باس کا مسئلہ ہے۔

ماہواری کو باعث شرم چیزوں سے نکالنےوالی حکمت عملی’میرے خیال میں یہ خیال کہ خواتین کے جسم اُنھیں نازک اور جذباتی طور پر غیر مستحکم بناتے ہیں بالکل وہی دلیل ہے جو 100 سال پہلے مردوں نے دی تھی جو خواتین کو ووٹ کا حق نہیں دینا چاہتے تھے’خواتین کو کام کی جگہ پر پیشہ ور افراد کے طور پر دیکھا جانا چاہیے، نہ کہ خواتین کے جسم اور اس کے افعال کو دیکھا جائے۔‘

مینسن کا اصرار ہے کہ عملے کو کبھی بھی اپنی ماہواری کے بارے میں بات کرنے پر مجبور نہیں کیا جانا چاہیے۔ یہ ایک ذاتی انتخاب ہونا چاہیے۔

ابتدائی تنازع ختم ہونے کے بعد، ایک کے بعد دوسری کمپنی نے اسی طرح کے دیگر اقدامات کا اعلان کرنا شروع کیا۔ کئی سٹارٹ اپس نے کاروبار کے لیے سینیٹری نیپکن اور ٹیمپون سبسکرپشن سروسز کا آغاز کیا۔ اس سال یہاں تک کہ سویڈش فوج نے بھی یہ خواتین فوجیوں کو دینے شروع کر دیےاور اس سال بھی مینسن سویڈن میں پانچ بڑی یونینز کے ساتھ کام کر رہا ہے۔

کلنٹر کہتے ہیں ’لیکن ابھی بھی بہت کچھ کرنا باقی ہےایک علاقے کے کارکن بچوں کی تعلیم پر زیادہ توجہ دینا چاہتے ہیں۔


کب شروع کرنا ہے؟

سویڈن میں لازمی جنسی تعلیم کی ایک طویل تاریخ ہے۔ 1950 کی دہائی سے، طلباء عام طور پر 10 سال کی عمر کے قریب، مخلوط کلاسوں میں ماہواری کے بارے میں سیکھتے ہیں تاہم، 16 سے 21 سال کی عمر کی خواتین میں سے نصف سے بھی کم نے ایک حالیہ مینسن سروے میں بتایا کہ وہ اپنی پہلی ماہواری کے بارے میں کافی معلومات رکھتی تھیں۔

کچھ کا خیال ہے کہ اسباق پری سکول میں شروع ہونے چاہیں۔

مصنفہ اینا سیموئیلسن ان میں سے ایک ہیں۔ انھوں نے ابھی 3 سے 6 سال کے بچوں کے لیے ماہواری پر سویڈن کی پہلی کتاب لکھی ہےان کا کہنا ہے کہ 'چھوٹے بچے بہت مشاہدہ کرتے ہیں'اور ایک ثقافتی مرکز میں کتاب پڑھنے آنے والی ماؤں میں سے ایک نے بی بی سی کو جو کچھ کہا، اس کے مطابق وہ ٹھیک کہہ رہی ہیں۔

میری بیٹی کو ماہواری میں بہت دلچسپی ہے اور وہ بہت سے سوالات پوچھ رہی تھی جن کا جواب میں واقعی نہیں جانتی تھی مرکزی کردار کا نام لیومودر کے نام پر رکھا گیا ہے، جو بچہ دانی کے لیے سویڈش لفظ ہے۔

’کتاب میں ہم بچہ دانی کے تمام دوستوں سے بھی ملتے ہیں: اندام نہانی، دماغ اور ہارمون یہ جسم میں کھیلتے ہیں۔ اور پھر اچانک ایک دن بچہ دانی کو کچھ محسوس ہوتا ہے جو ہو رہا ہے اور اس کی پہلی ماہواری ہوتی ہے۔

ماہواری کو باعث شرم چیزوں سے نکالنےوالی حکمت عملیکتاب 2019 میں منظر عام پر آنے کے بعد سے اس کی ہزاروں کاپیاں فروخت ہو چکی ہیں اور ابھی اسے دوبارہ جاری کیا گیا ہےمرکزی دھارے کے میڈیا میں ردعمل مثبت رہا ہے لیکن کچھ آن لائن فورمز میں اتنا زیادہ نہیں۔

چیزوں سے جڑی بدنامی کے ماہر ڈاکٹر لوئیس کلنٹ کی نظر میں اس کے بارے میں بات کرنا شروع کرنے میں کبھی جلدی نہیں ہوتی’دنیا کے بہت سے حصوں میں لڑکیوں کو 9 سال کی عمر میں ماہواری آنا شروع ہو جاتی ہے۔ اُنھیں اکثر اندازہ نہیں ہوتا کہ کیا ہو رہا ہے اور وہ سوچتی ہیں کہ وہ مر رہی ہیں۔ یہ خوفناک ہے۔‘

'ہم حیض کو جتنا زیادہ معمول پر لا سکتے ہیں، اتنا ہی ہم اس سے جڑے کسی ہتک کے احساس کو دور کر سکتے ہیں۔'

مصنوعات کی قیمت کارکنوں کے لیے ایک اور ترجیح ہے۔ اگرچہ سویڈن ایک امیر جگہ ہے جہاں زیادہ تر لوگ پیڈ، ٹیمپون یا ماہواری کے کپ خرید سکتے ہیں، لیکن انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ اُنھیں سستا کرنا اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ معاشرہ اُنھیں ضروری سمجھتا ہے۔

اگرچہ دیگر ممالک جیسے فرانس، انڈیا، آئرلینڈ اور انگلینڈ ٹیکس میں کمی یا کٹوتی کر رہے ہیں، اور سکاٹ لینڈ اُنھیں مفت فراہم کرتا ہے، سویڈن نے اس رجحان کی پیروی نہیں کی ہے وہ ماہواری کی مصنوعات پر 25 فیصد ٹیکس لگاتا ہے۔

ماہواری کا فن

سب وے پر سٹرومکسٹ کی تصاویر نے ماہواری کے بارے میں بحث کو ہوا دی،سالانہ طور پر معروف ماہر لسانیات کا ایک گروپ جسے دی سویڈش لینگویج کونسل کہا جاتا ہے ان الفاظ کی فہرست شائع کرتا ہے جو روزانہ کی گفتگو کا حصہ بن چکے ہیں۔ سنہ 2019 میں ایک مینسکونسٹ تھا، جس کا لفظی ترجمہ 'حیض کا فن' ہوتا ہے، حالانکہ اس کا استعمال اس بات کی نشاندہی کرنے کے لیے شروع ہو گیا ہے جسے ناقدین بہت زیادہ حقوق نسواں یا بنیاد پرست سمجھتے ہیں۔

اب ایک اور میونسپلٹی ایک عوامی نمائش میں ہاکانسون کے کام کی نمائش کرنے والی ہے جس میں حیض کے فن پر توجہ مرکوز کی گئی ہے جس کے لیے ٹیکس دہندگان کے ذریعے مالی اعانت فراہم کی گئی ہے۔

ماہواری کو باعث شرم چیزوں سے نکالنےوالی حکمت عملی

کلنٹر کہتے ہیں کہ ’چیزوں سے بے عزتی کا احساس دور کرنے کے لیے ان کا نظر آنا ضروری ہے۔ جب ہم خود کو ثقافت اور دوسری چیزوں میں دیکھ سکتے ہیں تو ہم چیزوں کو معمول پر لاتے ہیں اور ہم اس اندرونی احساس بے عزتی سے نمٹنا شروع کر سکتے ہیں جس کے ساتھ ہم سب کی پرورش ہوئی ہے۔‘

جو کچھ حاصل کیا گیا ہے اس کے باوجود، سویڈن ابھی بھی لیف سٹرومکسٹ کی خیالی دنیا سے بہت دور ہے: بہت سے لوگ اب بھی ماہواری کے بارے میں بات کرنے میں بے چینی محسوس کرتے ہیں۔

(یہ مضمون بی بی سی کی دستاویزی فلم سے اخذ کیا گیا ہے 'صرف خون بہہ رہا ہے: سویڈن ماہواری کے بارے میں کیسے کھلا'