محکمہ زراعت سندھ نے وفاقی سیکریٹری منسٹری آف انڈسٹری اینڈ پروڈکشن کو خط میں کہا ہے کہ سندھ میں گندم کی بوائی کا 97 فیصد کام مکمل ہوگیا ہے اور ایسے میں گندم کی فصل کو درکار اہم کھاد یوریاکی شدید قلت پیدا ہوگئی ہے۔
محکمہ زراعت سندھ نے وفاقی سیکریٹری منسٹری آف انڈسٹری اینڈ پروڈکشن کو خط میں کہا ہے کہ سندھ میں گندم کی بوائی کا 97 فیصد کام مکمل ہوگیا ہے اور ایسے میں گندم کی فصل کو درکار اہم کھاد یوریاکی شدید قلت پیدا ہوگئی ہے۔
وفاقی حکومت کو بھیجے گئے خط کے ساتھ کھاد کی قلت کے شکار 23 اضلاع کی فہرست بھیجتے ہوئے سندھ حکومت نے لکھا کہ سندھ کے 23 اضلاع میں 53 لاکھ 71 ہزار بوریوں یا دو لاکھ 68 میٹرک ٹن کھاد کی قلت ہے۔ اس لیے کھاد کے ڈیلرز کو پابند بنایا جائے کہ وہ سندھ کے ان اضلاع کو کھاد مہیا کریں۔ اگر کھاد وقت پر نہ دی گئی تو سندھ میں گندم کی فی ایکڑ پیداوار میں کمی ہوسکتی ہے۔
زراعت کے متعلق وزیراعلی سندھ کے مشیر منظور وسان نے بتایا کہ یوریا کھاد فرٹیلائزر کمپنیاں وفاقی حکومت کے ماتحت ہیں، اس لیے ہم نے خط وفاق کو خط لکھا ہے کہ فرٹیلائزر کمپنیوں کوہدایت کی جائے کہ سندھ میں یوریا کھاد کی تقسیم بہتر طریقے سے کی جائے۔ کیوں کہ فرٹیلائزر کمپنیاں سندھ میں یوریا کھاد کوٹہ کے تحت تقسیم کرنے میں ناکام ہوچکی ہیں۔
محکمہ زراعت سندھ کے ڈائریکٹر جنرل ہدایت اللہ چھجڑو نےگفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ سندھ میں گندم کی بوائی نومبر کے پہلے ہفتے سے شروع ہوتی ہے، جبکہ پنجاب میں گندم کی بوائی 15 دن کے بعد شروع ہوتی ہے۔
ان کے مطابق سندھ میں گندم تقریبا 30 لاکھ ایکڑ پر کاشت کی جاتی ہے۔ جس کے لیے یوریا کھاد کی ایک لاکھ 45 ہزار بوریاں درکار ہوتی ہیں، مگر سندھ کو ابھی تک صرف 94 لاکھ بوریاں مل سکیں ہیں۔
سندھ میں گندم کی فصل کی 97 فیصد بوائی ہوچکی ہے۔ جنوری میں دریائے سندھ کے کینالوں پر سالیانہ بندی ہوجائے گی۔ اس سے پہلے یوریا کھاد نہ ملی تو فی ایکڑ پیداوار میں کمی ہوگی، جس سے انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے۔
ہدایت اللہ چھجڑو کے مطابق کھاد کمپنیاں وفاقی حکومت کے زیر انتظام ہیں۔ اس لیے وفاقی حکومت کو خط لکھا گیا ہے۔ سندھ کو کھاد مہیا کرنے کا کوٹا جن کمپنیوں کو ملا ہے وہ سندھ کو کھاد مہیا کرنے کے بجائے زیادہ منافع کی لالچ میں سمگلنگ کر رہے ہیں۔ اس وجہ سے سندھ میں کھاد کی شدید قلت پیدا ہوگئی ہے۔
محکمہ زراعت سندھ کے ترجمان نے بتایا کہ یوریا کھاد افغانستان سمگلنگ کے باعث کھاد کا بحران ہوا ہے،ترجمان محکمہ زراعت سندھ کے مطابق: افغانستان میں یوریا کھاد کی قیمت زیادہ ہونے کے باعث مقامی ڈیلر سندھ کے کوٹے کی کھاد براستہ بلوچستان افغانستان سمگل کر رہے ہیں، جس کو روکنے کے لیے سندھ حکومت جیکب آباد اور کراچی کے ناردرن بائی پاس پر چیک پوسٹ قائم کررہی ہے۔
کھاد بحران: فی ایکڑ کم آمدنی سے ملک کو ایک ارب روپے کے نقصان کا خدشہ
محمود نواز شاہ نے بتایا کہ ملک میں جاری حالیہ گیس بحران کے باجود حکومت کھاد کے کارخانوں کو ترجیح بنیادوں پر گیس مہیا کررہی ہے اور ملکی کھاد کی پیداوار میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ ملک میں نہ ہی گندم کی پیداوار کا رقبہ بڑھا ہے۔
تو پھر سوال اٹھتا ہے کہ کھاد کہاں گئی؟ پہلے ڈائی امونیئم نائٹریٹ (ڈی اے پی) کھاد سے شروع ہوتا بحران اب یوریا کی عدم دستیابی میں تبدیل ہوگیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ عدم دستیابی کے باعث سندھ میں 1756 سے 1780 روپے تک ملنے والی یوریا کھاد کی بوری 2800 سے 3000 روپے تک پہنچ گئی ہے، جبکہ پنجاب میں بھی قیمت 2500 تک پہنچ گئی ہے۔
اگر ملک بھر میں یوریا کھاد کی کل کھپت کا حساب کتاب لگایا جائے اور اس کی قیمت میں اگر 500 روپے فی بوری بھی مصنوعی اضافہ کیا گیا تو اس کا مطلب ہے کہ پانچ سے سات ارب روپے کا چونا لگایا گیا ہے۔
انہوں نے سوال کیا کہ حالیہ دنوں کھاد بنانے والی کمپنی اینگرو کھاد کے اعداد و شمار دے چکی ہے کہ کتنی کھاد کس کو دی گئی ہے۔ تو اب حکومت سراغ لگائے کہ وہ کھاد کہاں گئی؟
گذشتہ سال پاکستان میں 27 ملین ٹن گندم کی پیداوار پر خوشی منائی گئی، مگر ہم نے دیکھا کہ اس کے باوجود آٹے کی قیمت 70 سے 75 تک پہنچ گئی۔ اگر حالیہ یوریا کھاد کا بحران رہا اور گندم کی پیداوار کم ہوئی تو آٹے کی قیمت کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں۔
اس وقت کھاد کی ضرورت صرف گندم کو ہی نہیں بلکہ سورج مکھی، سرسوں کے ساتھ سبزیوں کو بھی کھاد کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ بحران صرف گندم تک محدود نہیں رہے گا۔
ان کے مطابق اس کے علاوہ جنوری میں سالیہ وارا بندی ہے، اس کے علاوہ تربیلا ڈیم کے ٹنل کی مرمت کے کام کے باعث آنے والے مہینوں میں پانی کی قلت بھی ہوسکتی ہے۔ ایسے میں اگر فی ایکڑ پیداوار میں کمی کے باعث 10 فیصد کمی بھی ہوئی تو ملک کو ایک ارب روپے کا نقصان ہوسکتا ہے۔
نواب شاہ میں یوریا کھاد نہ ملنے پر قوم پرست رہنمائوں نے پریس کلب کے سامنے احتجاجی کیمپ لگایا
دوران احتجاج کئی قوم پرست رہنمائوں کی حالت غیر ہو نے کی اطلاع ہے۔موجودہ حکومت نے کسان کارڈ کا اجرا کیا لیکن چھوٹا کسان اس سے بھی محروم ہے۔بہتر بیج پہلے ہی نایاب تھے ،جس بنا پر کسانوں کو محنت کے مطابق پھل نہیں ملتا تھا،اب تو یوریا کھاد بھی ملنا مشکل ہو گئی ہے ۔اس وقت گندم،آلو اور سٹرابری کو کھاد کی اشد ضرورت ہے اگر بروقت کھاد دستیاب نہ ہوئی تو پھر پیداوار میں کمی ہو گی۔ کسانوں کی محنت نہ صرف ضائع ہو گی بلکہ انکے اخراجات بھی پورے نہیں ہونگے۔وزیر زراعت اس پورے منظر نامے میں غائب ہیں۔اگر وہ تھوڑی سی تگ و دو کریں تو کسانوں کی مشکلات کم ہو سکتی ہیں۔سندھ میں یوریا کھاد کی فیکٹریاں ہیں لیکن اگر سندھ کے کسانوں کو ہی یوریا کھاد نہیں ملے گی تو دیگر صوبوں کے کسانوں کا کیا بنے گا؟کچھ روز قبل ایف آئی اے نے یوریا کھاد کے سٹاک پکڑے تھے مگر اس کے بعد خاموشی ہے
یوریا کھاد کی قلت: گندم کی پیداوار کم ہونے سے انسانی المیے کا خدشہ
سندھی قوم پرست رہمنا اور قومی عوامی تحریک کے سربراہ ایاز لطیف پلیجو نے کہا ہے کہ یوریا کھاد کی قلت کے باعث سندھ میں خوراک کے شدید بحران کا خدشہ ہے۔ واٹس ایپ پر بھیجے ایک ویڈیو پیغام میں ایاز لطیف پلیجو نے کہا کہ گندم کی فصل کو بوائی سے فصل پکنے تک تین بار پانی دیا جاتا ہے اور ہر پانی کے ساتھ فی ایکڑ ایک بوری یوریا کھاد کی بھی دی جاتی ہے۔ اس طرح گندم کی فصل کو فی ایکڑ تین بوری یوریا درکار ہے، جو اب مارکیٹ میں یا تو میسر نہیں یا پھر اس کی قیمت ڈبل کر دی گئی ہے۔
0 Comments
Post a Comment