سنا تھا ریٹائرڈ سرکاری افسران کی میٹھی عید اتنی میٹھی نہیں ہوتی جتنی کہ حاضر سروس افسران کی۔ سو یہ تجربہ بھی ہو گیا۔
وران سروس عید پر برانڈڈ کیک کی بھر مار ہوتی اور اس قدر ہوتی کہ بانٹنے پڑجاتے۔ کیک کے ساتھ بڑے بڑے پھولوں کے گلدستے بھی آتے۔اس دفعہ ایسی گہما گہمی دیکھنے کو نہ ملی۔ مگر ہاں، میں اس کے لیے ذہنی طور پر تیار تھا۔
تم تکلف کو بھی اخلاص سمجھتے ہو فرازؔ
دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا
اور یہ ''موقع بھی ہے،دستور بھی اور رواج بھی''۔ پرانی بات ہے ہمارے ایک عزیز تھے، نہایت با کردار اور مثبت سوچ رکھنے والے۔ ان کے گھر دیکھا کہ بے شمار عید کارڈ آئے ہوئے تھے۔میں نے تعریفی انداز میں کہا،''واہ جی واہ بڑے عید کارڈ آئے ہیں، بہت چاہنے والے ہیں آپ کے۔ جواب ملا،''ہاں، آخری دفعہ ہے اگلے سال نہیں آئیں گے ''اور اگلے سال وہ ریٹائرڈہو گئے۔ہمارے ہاں بھی شروع شروع میں بڑی تعداد میں عید کارڈ آتے، پھر وقت بدلااور ای میل پر پیغامات آنے لگے۔
اور اب واٹس ایپ پر تو مبارکباد وصول کرتے گھنٹوں لگ جاتے۔ عید دراصل بچوں کی ہوتی ہے اور رشتے داروں دوستوں کے ساتھ عید منانے میں مزا آتا ہے۔
اگر آپ کوئی بڑے سرکاری افسر ہیں تو جان پہچان والے سب لوگ آپ سے ملنا ضروری سمجھتے ہیں کیونکہ اس روز پہلے سے بتانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ایک صاحب ہمارے گھر آئے اور بچوں کو بہت ساری عیدی دے گئے۔ اب بچے ہر سال ضدکرتے کہ ماموں کے ہاں جائیں یا نہ جائیں عیدی والے انکل کے گھر ضرور جا نا ہے۔
کچھ دور پرے کے رشتے داربھی بہت تپاک سے آتے اور والہانہ انداز میں ملتے اور اکثر کھانے کی دعوت بھی دیتے۔میں نے اپنے بھائی سے ذکر کیا کہ یہ رشتے دار بڑے اچھے ہیں۔ہمیں ان سے ملتے رہنا چاہیے۔
بھائی نے مسکرا کر جواب دیا۔''رشتہ تو میرا بھی ان سے وہی ہے جو تمہارا ہے اور میں بڑا بھی ہوں، میرے ہاں تو یہ نہ کبھی آئے اور نہ کبھی بلایا''۔ کیا کہاوت ہے! تحصیل دار کے والد صاحب کا انتقال ہو گیا۔ ان کے غم میں شرکت کے لئے تقریباً پورا علاقہ امڈ آیا۔ کچھ عرصہ بعد تحصیل دار صاحب خود وفات پا گئے۔ لیکن اس دفعہ ان کے لواحقین جنازے میں شریک ہونے والوں کی راہ دیکھتے ہی رہ گئے، کوئی نہ آیا۔
عید اللہ کی طرف سے رمضان کا با برکت مہینہ منانے کا تحفہ ہے۔رمضان میں لوگ روزے رکھتے اور معمول سے زیادہ عبادات کرتے۔ اللہ بھی عرش سے اپنی رحمتوں کا نزول فرماتا۔ مگر زمین پر شیطان کے چیلے بھی خوب سرگرم ہو جاتے۔ موٹر سائیکل اور گاڑیوں والے افطار کے وقت روزہ مکرہ ہونے کے خوف سے تیز رفتاری کا مظاہرہ کرتے اور جب کوئی ایکسیڈنٹ ہو جاتا تو روزے کے احترام بھول کر ایک دوسرے کا گریبان پھاڑتے نظر آئیں گے۔
دوکاندار روزمرہ استعمال کی اشیاء مہنگے داموں بیجتے، موبائل اور پرس چھیننے کے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا اور اکثر عین سحری اور افطار کے وقت ڈکیتی کی وارداتیں بھی رپورٹ ہوئیں۔ اور یوں پولیس والے سارے رمضان چور ڈاکوؤں کا پیچھا کرتے رہتے۔کچھ عرصہ قبل عین عید نماز کے دوران دہشت گردی کے واقعات ہوئے۔
مجھے یاد ہے کہ جب تک عید کی نماز خیریت سے ہوجانے کی ہر طرف سے رپورٹ نہ آجاتی، جان سولی پہ اٹکی رہتی۔اب جب کہ میں ریٹائرڈ ہو گیا ہوں، اس دفعہ میرے پاس وقت بھی خوب تھا۔ رشتے دار میرے گھر نہ آئے بلکہ میں ان کے گھر گیا۔ والد صاحب کی قبر پر فاتحہ پڑھنے ہر سال جا تا ہوں، اس دفعہ بھی گیا مگر صرف اپنی گاڑی میں۔نہ آگے کوئی اسکارٹ تھا اور نہ پیچھے کوئی پروٹوکول۔شاید والد صاحب نے بھی یہ دیکھ کر کچھ تبسم فرمایا ہو گا۔ اس دفعہ اچھی بات یہ ہوئی کہ چینل ونے یاد فرمایا اور میں نے بھی وہاں عید کی شان میں قصیدے پڑھے کہ عید کیسے منانی چاہیے۔
اب رش پڑھ جانے کی وجہ سے چاند رات پر باہر نکلنے کا رواج کم ہو گیا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک چاند رات پر باہر نکلنا عید کا لازمی جزو تھا۔ لڑکیاں مہندی لگواتی اور چوڑیاں خریدتی تھیں۔
کچھ منچلے لڑکے صرف لڑکیوں کو چوڑیاں پہنانے کے لیے اس روز چوڑیوں کا سٹال لگا لیتے۔ یورپ اور امریکہ میں رہنے والے اس ہنگامے سے محروم رہتے ہیں۔کوئی چھٹی نہیں ہوتی اور اگر چھٹی کریں تو تنخواہ کٹ جاتی ہے۔بڑی مشکل سے وقت نکال کر عید کی نماز ادا کر پاتے ہیں۔
ہم بحیثیت پاکستانی اور ایک مسلمان ملک میں رہنے کی وجہ سے ایسی بہت سی نعمتیں بھر پور طریقے سے سمیٹتے ہیں۔ الحمداللہ
مڈل کلاس، اپر مڈل کلاس اور امراء کا طبقہ یہ تہوار خوب جوش و فروش سے مناتا ہے۔مگر مالی طور پر کم حیثیت اور ہمارے گھروں میں کام کاج کرنے والے ملازمین کی روٹین یکساں ہی رہتی ہے۔
نہ ان کے بچے نئے کپڑے بناتے اور نہ ہی وہ انواع اقسام کے شیر خورمہ سے لطف اندوز ہوتے۔ اگر ہم اپنی خوشیوں میں کچھ حصہ ان محروم لوگوں کے ساتھ شیئرکریں تو یقینا ہماری خوشیوں میں دوگنا اضافہ ہو گا۔ کراچی میں ایک خیراتی ادارہ ہے۔
''دارالسکون ''یہاں ذہنی اور جسمانی طور پر معذور بچوں کی رہائش کا انتظام ہے۔ میرے ایک دوست عید کے روز وہاں جا کر دو چھوٹے چھوٹے بچے لے آتے اور تمام دن اپنے ساتھ رکھتے۔اگر کہیں عید ملنے جاتے تو ان بچوں کو بھی ساتھ لے جاتے۔
ذرا سوچیں وہ محروم اور معذور بچے کتنے خوش ہوتے ہوں گے۔ یہ ایک قابل تحسین اور قابل تقلید عمل تھا۔ دعا ہے کہ اللہ ہم سب کو عید کے روز کم از کم ایک اچھا کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
عید کی ایک بڑی کشش عیدی بھی ہے۔ ہم جب چھوٹے تھے تو سارا دن عیدی جمع کرتے اور گنتے گزار دیتے۔ اس روایت کو قائم رہنا چاہیے۔ بے شک کم رقم دیں لیکن بچوں اور ملازمین کو عیدی ضرور دیں۔
بات ریٹائرڈ یا فعال افسر کی عید سے شروع ہوئی تھی۔ دوران سروس، افسر کو نہیں اس کی کرسی کو عید کا سلام پیش کیا جاتا ہے۔ یہ دنیاوی کرسی عارضی اور بے وفا ہے۔ جس نے اس کو دائمی سمجھا وہ گھاٹے میں رہا۔ اصل کرسی تو وہ جو سب آسمانوں اور زمین پر حاوی ہے۔
جس نے اس کرسی والے حقیقی مالک اور حاکم کو سمجھا اور صرف اسی سے رجوع کیا وہ فلاح و ہدایت پاگیا۔
0 Comments
Post a Comment