نامناسب جملے

تحریر :جرنلسٹ بشری جبیں

 تحریر :جرنلسٹ بشری جبیں

jjabee034@gmail.com

کچھ ایسے جملے ،جو والدین دن میں کئی بار بولتے ہیں اور بچے سن کر کوئی خاص رسپانس نہیں دے رہے ہوتے۔اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ جس طرح والدین نے چند جملے دہرا کر بچوں کو منع کرنا ہوتا ہے۔با لکل اسی طرح بچے ایسے جملے سننے کے اتنے عادی ہو جاتے ہیں کہ بعض اوقات بچوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ہمارے بچے اکثر ہمارے لئے آئینہ ثابت ہو تے ہیں ۔وقت گزرنے کے بعداحساس ہوتا ہے کہ اگر اپنی بات کو سادہ اور نرم لہجے میں بیان کرتے توبچے اچھا رسپانس کرتے۔

بعض اوقات اگر سخت اور ترش لہجوں پر غور کیا جائے تو اس انداز کو بدلنا،کہنا ،کرنا بظاہر مشکل محسوس ہوتا ہے۔لیکن اس مشکل پر قابو پانے سے آگے کی زندگی آسان ہو جاتی ہے۔لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ زندگی کو آسان اور خوشگوار بنانے کے لئے لفظوں کو بہتر انداز میں ادا کیا جائے۔اگر ان جملوں میں مثبت تبدیلی لائی جائے تو نہ صرف یہ جملے بار بار ادا کرنے کی ضرورت ہو گی اور نہ ہی بچوں کو اس بات کا احساس ہو گا کہ ان کے والدین ہمیشہ ایک جیسی باتیں کرتے ہیں ۔

بچوں سے ہمیشہ نرم لہجے میں بات کریں۔ڈانٹنے کے انداز میں بھی ٹھہرا اور نرمی لائیں ۔کیونکہ کسی بھی انسان کے اندرکمال سے ذیادہ اچھائی کی طرف پیش رفت ہونااز حد ضروری ہے۔سب سے پہلے بچوں میں اپنی نرم گفتگو سے یہ احساس پیدا کریں کہ ان کی ذات سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے۔ہر جگہ جانے سے پہلے بچوں کو یہ کہا جاتا ہے کہ تمیز سییہ لفظ کہہ کر ہم خود ہی اس بات کی نفی کر رہے ہوتے ہیں کہ ہمارے بچوں میں تمیز نام کی کوئی چیز نہیں ۔اس بات کو اس انداز سے بھی بچوں کو سمجھایا جاسکتا ہے کہ آپ کہیں بھی جائیں تو اس بات کا خیال رکھیں کہ آپ کی وجہ سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے جیسے پارک جائیں تو لوگوں کے ساتھ ساتھ جانوروں کو بھی نقصان نہ پہنچائیں ۔

براہِ مہربانی آرام سے بات کریں یہ بات کرنے کے لئے بھی والدین کو بچوں سے نرم لہجے میں سرگوشی کے انداز میں بات کرنی چاہئے۔جبکہ یہ کہنے کے لئے بعض والدین اپنی پوری طاقت کا استعمال آواز کو پر اثر بنانے میں کر دیتے ہیں۔بہت سے بچے قدرتی طور پر زور سے بولتے ہیں ۔ایسے بچوں کے ساتھ سرگوشی میں بات کریں رفتہ رفتہ ان کو بھی عادت ہو جائے گی ۔ہلکی بول چال اور آنکھ کے اشارے سے بچوں کو دھیما بولنے کی عادت ڈالی جا سکتی ہیاپنا کام خود کرنا سیکھواس سے بہتر جملہ بھی بولا جا سکتا ہے جس سے بچے کی انا مجروح نہ ہو بلکہ اس کو احساس ہو کہ وہ اپنے والدین کی مدد کس طرح کر سکتا ہے۔اس انداز سے بچوں میں یہ احساس پیدا ہو گا کہ وہ اب بڑے ہو گئے ہیں اور چھوٹے چھوٹے کام کر کے والدین کی مدد کر سکتے ہیں ۔بچوں میں مثبت احساس پیدا ہو گا۔شرم کرویہ لفظ بچے پر منفی اثر ڈالتا ہے اور وہ بار بار یہ لفظ سن کر اس لفظ کا عادی بن جاتا ہے ۔

اگر بچہ کوئی غلطی کرے تو اس کو سمجھائیں کہ اس نے غلط کیا۔اپنی آواز کو جاندار بنانے سے کہیں بہتر ہے کہ اپنے لفظوں کو بہتر انداز میں ادا کریں ۔یعنی بچہ غلطی کرے تو اس کو سمجھائیں کہ اگلی بار یہ غلطی دہرا گے تو پھر سے کسی پریشانی میں مبتلا ہو جا گے اور یہ بھی کہ تم نے اس غلطی سے کیا سیکھا۔ایسا کہنے سے اگلی بار بچے کی توجہ کی گئی حوصلہ افزائی پر مرکوز ہو جائے گی اور وہ دوبارہ جان بوجھ کر غلطی نہیں کرے گا۔ہر بچے کی خواہش ہوتی ہے کہ اچھے سے اچھا کھلونا خریدے اور خود والدین کی سب سے بڑی خواہش ہوتی ہے کہ جو بات بچے کے منہ سے نکلے وہ پوری ہو جائے مگر بعض اوقات معاشی حالات سے جہاں انسان مجبور ہو جاتا ہے وہاں سخت الفاظ بولنے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔لیکن اس سے بچوں کی نفسیات پر برا اثر پڑتا ہے۔

اس لئے بہتر ہے کہ جو چیزخریدنی ممکن نا ہو بچوں سے کہیں کہ وہ چیز اپنی آنے والی سالگرہ کی فہرست میں لکھ لیں ۔اس کے ساتھ ساتھ بچوں کو یہ سمجھانا بھی ازحد ضروری ہے کہ دوسروں کی چیزیں دیکھ کر لینے کی ضد نہیں کرنی چاہئے۔بچے بہت سمجھدار ہوتے ہیں ۔ان کی سمجھ کو سمجھ کر اگر سمجھایا جائے تو وہ اس پر عمل کرتے ہیں ۔اپنی اور دوسروں کی عزت کرواس جملے کو اس انداز میں کہنا زیادہ بہتر ہے کہ اچھے بنوجب بچے اچھا بننے کی کوشش کریں گے تو وہ دوسروں کی عزت خود بخود کریں گیبچوں کو ہر وقت روک ٹوک نہ کریں لیکن اس بات کا بھی خیال رہے کہ کوئی اور بچے کو منع کرے یہ والدین کی ذمے داری ہے کہ وہ بچوں کی تربیت ایسے کریں کہ کوئی ان کو روک ٹوک نہ کر سکے۔بچوں کی مدد کریں کہ وہ اپنے جذبات کو پہچان سکیں ۔ایسا کر کے بچوں کے رویوں میں مثبت رجحان دیکھنے میں آئے گا ۔جس میں عزت بھی ہو گی اور محبت بھی۔