آخر کب تک کسان ذلیل و خوار ہوتا رہے،میری اس کالم کے توسط سے حکومت وقت سے اپیل ہے کہ خدارا کسانوں کے حال پر رحم کریں اگر کسان کو خوشحال رکھو گے تو ملک ترقی کرے گا

رپورٹ۔۔۔۔مظہر حسین باٹی۔۔۔۔۔

گذشتہ دنوں سے مختلف قومی اخبارات اور نیوز چینلز پر دیکھنے اور پڑھنے کو ملا کہ ہر ضلع میں کھاد کا بحران ہے،کسان ہر جگہ ذلیل و خوار ہورہا ہے متعدد جگہوں پر بلیک میں کھاد مل رہی ہے گویا کسان لٹنے پر مجبور ہے،حکومت اور افسران کی تمام تر کوششوں کے باوجود کھاد مارکیٹ میں بااسانی مہیا نہ ہوسکی بلکہ دن بدن کھاد کا بحران بڑھتا گیا۔

مقامی محکمہ زراعت کے افسران کی ملی بھگت سے متعدد ڈیلر حضرات رات کی تاریکی میں کسانوں کو منہ بولی قمیت پر کھاد دینے لگے،محکمہ زراعت کے افسران اعلی افسران کو جھوٹی کارکردگی دیکھانے کے لیے کچھ ڈیلروں کو جرمانے بھی کرتے دیکھائی دیتے ہیں۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کب تک کسان ذلیل و خوار ہوتا رہے گا ہماری زراعت کو ملک میں،،ریڑھ کی ہڈی کی  حیثیت،،حاصل ہے کسان اگر خوشحال ہوگا تو ملک خوشحال ہوگا لیکن یہاں پر نظام الٹ چل رہا ہے سارا ظلم ہی مختلف بحرانوں کی صورت میں کسانوں پر کیا جاتا ہے،ملک کے بڑے بڑے مگر مچھ ڈیلروں کی تو،،لاٹری،،نکلی ہوئی ہے انہوں نے ہزاروں بوریاں اسٹاک کی ہوئی ہیں بڑے بڑے گودام کھاد سے بھرے پڑے ہیں لیکن وہ چھوٹے ڈیلروں کو بھی بلیک میں کھاد دے رہے ہیں۔

اس سے صاف ظاہر ہے کہ حکومتی مشینیری مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے جو بڑے ڈیلروں پر ہاتھ نہیں ڈال سکتی۔ملک بھر کی طرح پنجاب بھر کے مختلف اضلاع خاص طور پر ضلع خانیوال میں یوریا کھاد نایاب ہو گئی ہے جس کی وجہ سے کسانوں کی لمبی لمبی قطاریں لگ گئیں۔

 پچھلے ایک ماہ سے کھاد بلیک میں بکنے لگی ہے اور ضلع بھرمیں اس کی قلت کے باعث کسانوں کا برا حال ہوگیا ہے، ایجنسی ڈیلر شاپ پر کسانوں کا جم غفیر ہوتا ہے،کھاد نہ ملنے کے شکوے کسانوں کی زبان زدعام ہیں۔گندم کی فصل کے لئے کھاد کے طلبگار کسان مہنگے داموں کھاد خریدنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔کھاد یوریا کی اصل سرکاری قیمت 1760 روپے ہے لیکن بلیک مارکیٹ مافیا 2500 روپے تک فی بوری فروخت ہورہی ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ اس مافیا کے خلاف انتظامیہ بے بسی کا شکار نظر آتی ہے اور ایجنسی ڈیلرز کی من مانی قیمتیں وصول کرنے لگے ہیں۔

اس سے قبل کھاد کا بحران شدت اختیار کرنے کے بعد وزیراعظم عمران خان کی صدارت میں کھاد کے موجودہ اسٹاک اور اسکی قیمتوں کے جائزہ کے حوالے سے اجلاس بھی کیا گیا تھا لیکن کوئی بھی طریقہ کھاد کے موجودہ بحران کوختم نہ کرسکا۔یاد رہے تین ماہ قبل پنجاب حکومت کے ترجمان فیاض الچوہان نے ایک بیان میں کہا تھا کہ پنجاب حکومت نے کھاد پر ساڑھے بارہ ارب روپے کی سبسڈی دی تھی اور پنجاب حکومت نے کھاد کے ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کاروائیاں بھی کی تھیں۔

کسانوں کا کہنا ہے کہ ان تمام اقدامات کے باجود پنجاب حکومت کھاد کی ذخیرہ اندوزی کو ختم کروانے میں ناکام دکھائی دیتی ہے۔اس ساری صورتحال میں حکومتی  ناکامی کھل کر سامنے آئی ہے،افسران کی ملی بھگت سے بھی کھاد بلیک میں فروخت ہورہی ہے اور افسران ڈیلروں سے بھتہ وصول کررہے ہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس ساری صورتحال میں کسانوں کی نام نہاد تنظیمیں کہاں غائب ہیں یا وہ بھی کچھ لے کر خاموش ہیں پہلے تو تھوڑی سی بات پہ کسانوں کے جذبات کے لیے احتجاج کرتی تھیں لیکن اب کیوں خاموش ہیں بس اصل میں بات یہ ہے کہ کسانوں کی نام نہاد تنظیموں کے وڈیرے کنٹرول ریٹ پر کھاد خفیہ طریقے سے لے کر اپنے من پسند کسانوں کو دے رہے ہیں اور بلیک میں بھی فروخت کررہے ہیں جس سے ان کا احتجاج کا حق ختم ہوگیا ہے۔

کسانوں کی نام نہاد تنظیمیں اس معاملے میں خاموشی اختیار کیے ہوئے ہےجس سے ان کا کسانوں کی نمائندگی کرنے کی بات کھل گئی ہے جہاں ذاتی مفاد مل جائے وہاں احتجاج ختم۔۔۔۔ جہاں ذاتی مفاد نہ ملے وہاں کسانوں کو استعمال کرکے احتجاج ریکارڈ کروا کر بعد میں چپکے سے ڈیل کرنی یہ ہے کسانوں کی نام نہاد تنظیموں کا منشور۔۔۔۔۔۔ افسوس صد افسوس ایسے نمائندے کیا خاک کسانوں کی نمائندگی کریں گے۔۔۔۔؟

میری آخر میں اس کالم کے توسط سے حکومت وقت سے اپیل ہے کہ خدارا کسانوں کے حال پر رحم کریں اگر کسان کو خوشحال رکھو گے تو ملک ترقی کرے گا اگر کسان مختلف بحرانوں کا شکار رہا تو مسائل پیدا ہوں گے،کھاد بحران کا خاتمہ حکومت کا اولین فرض بنتا ہے،افسران کو چاہیے کہ مگر مچھ ڈیلروں کے گوداموں پر کھاد سٹاک کو مارکیٹ میں لے آئیں اور کنٹرول ریٹ پر کسانوں کو کھاد مہیا کریں۔