ڈسٹرکٹ ملیر لانڈھی جیل شدید بدانتظامی کا شکار
تفصیل کے مطابق ڈسٹرکٹ ملیر میں واقع لانڈھی جیل کے انتظامی معاملات شدید بدانتظامی کا شکار ہوکر رہ گئے ہیں اور جیل سپرنٹنڈنٹ ایس ایس پی ارشد شاہ جیل کے اندرونی و بیرونی انتظامات کو ٹھیک کرنے میں بری طرح ناکام دکھائی دیتے ہیں
دستیات معلومات کے مطابق ڈسٹرکٹ ملیر جیل کی حدود میں ہرقانونی وغیرقانونی مراعات کیلئے الگ الگ ریٹ مقرر ہیں ملیر جیل کے گیٹ پر تعینات اہلکار ملیر جیل آنے والے ملاقاتیوں کے موبائل فون رکھتے ہیں اورملاقاتیوں کو موبائل کا ٹوکن دیا جاتاہے پھر موبائل کی واپسی کے وقت جیل پولیس اہلکار 50روپے فی موبائل کے حساب سے وصول کرتے ہیں
اسی طرح ملیر جیل میں باقاعدہ طور پر قیدیوں کو منشیات فراہم اور فروخت بھی کی جاتی ہے،اہلکاروں کے پاس نشے کے عادی قیدیوں کے اہل خانہ کے موبائل نمبرز موجود ہیں اور وہ ان اہل خانہ سے نشے کے عادی قیدیوں کی گھر پر بات کراکر پورے ایک ہفتے کی منشیات کا باقاعدہ طور پر انتظام کرادیتے ہیں اور اگلے روز ان کے گھر والوں سے پیسہ وصول کرتے ہیں ذرائع کے مطابق ملیر جیل میں منشیات کی سپلائی اور جیل میں منشیات کی فروخت میں چوہدری ریاض، راشد چنگاری، نثار تنولی شامل ہیں ملیر جیل میں تلاشی کی ڈیوٹی پر تعینات اہلکار جیل آنے والے ملاقاتیوں کی تلاشی کے نام پر فی سامان کی تھیلی 100روپے وصول کرتا ہے اور قیدیوں کو ان کے اہلخانہ کی طرف سے دیئے گئے ہر 1000روپے میں سے 200کے حساب سے پیسے الگ کرتے ہیں اسی طرح روزانہ کی بنیاد پر کورٹ سے واپسی آنے والے350 قیدیوں سے تلاشی کے نام پر فی قیدی 50 روپے الگ سے وصول کیئے جاتے ہیں
اگر قیدی کی جیب میں 1000روپے ہوں تو قیدی سے200 روپے وصول کیئے جاتے ہیں,اسپیشل ملاقات جو فیس ٹو فیس کرائی جاتی ہے اس کا ریٹ 5ہزار روپے سے 10 ہزار روپے فکس ہے اس ملاقات کا دورانیہ 20منٹ مقرر ہے جبکہ ایسی ملاقاتیں دن میں 12سے 15بار مختلف قیدیوں کی کرائی جاتی ہیں اس کے علاوہ ملاقات روم میں بھی جلدی ملاقات والوں سے شارٹ پرچی کے نام پر الگ سے 200روپے وصول کیئے جاتے ہیں ان پیسوں کے عوض اہلکار بغیر کسی نمبر کے جلدی ملاقات کراتے ہیں اور جو پیسے نا دے وہ نمبر کے حساب سے ملاقات کرے گا اسی طرح جو قیدی کورٹ سے واپس آتے ہیں ان کو 100کا نوٹ دینے پر ماڑی کے اندر بیٹھایا جاتا ہے اور جو قیدی100 روپے نادیں وہ شدید گرمی کے موسم میں باہر بیٹھ کر اپنی باری کا انتظار کرتے رہتے ہیں اس کے ساتھ پیسے دینے والوں کو اوپر اچھی جگہ بیٹھایا جاتا ہے جبکہ نا دینے والوں کو نیچے زمین پر بیٹھائے رکھا جاتا ہے
اسکے علاوہ ملیر جیل کے اند کراٹین نامی ایک تشدد خانہ ہے جس میں نئے آنے والے قیدیوں کو رکھا جاتا ہے اور پرانے قیدیوں سے ان پر تشدد اور اذیت کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں تاکہ ان کے گھر سے فی کس دس ہزار روپے سے 50ہزار روپے کی وصولی کی جائے اور یہ وصولی باآسانی نا ہونے کی صورت میں گھر والوں کو قیدیوں پر جاری تشدد کی آواز فون کال پر سنوائی جاتی ہے تاکہ اہل خانہ مجبور ہرکر یہ پیسے ادا کریں اور ساتھ میں ان کو یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اگر انہوں نے اپنا منہ کھولا یا پھر اس بات کاذکر کسی شخص کے سامنے کیا تو ان کے ملزم/قیدی کو مزید جسمانی تشدد کا سامنا کرنا پڑے گا
اس طرح رہائی پانے والے قیدیوں سے بھی باقاعدہ طور پر پیسے وصول کیئے جاتے ہیں ذرائع نے مزید یہ بھی بتایا کہ قیدیوں کی کورٹ میں پیشی کے دن قیدیوں کی بولی لگتی ہے جو قیدی پیسے دیتا ہے وہ کورٹ پیشی پر جاتا ہے اور جو نا دے اس کو پیشی پر نہیں لے کر جاتے چاہے اس دن قیدی کو معزز جج صاحبان نے ہی کیوں نا طلب کیا ہو مگر اہلکار انتہائی چالاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پیسے نا دینے والے قیدیوں کو پرزنر وین کی کمی کا بہانہ بنا کر چھوڑ دیتے ہیں اس کے علاوہ جن ملزمان کو عدالت سے سزا ہوجاتی ہے ان کو جیل بدلی کے نام پر بلیک میل کیا جاتا ہے اگر قیدی بھاری رقم دینے والا ہے تو سزا کے باوجود بھی لانڈھی جیل میں رہتا ہے جبکہ اگر کوئی قیدی غریب ہو تو اس کو جلد از جلد جیل بدلی کرانے کیلئے خاص اقدامات کا آغاز کردیا جاتا ہے اگر یوں کہیں کہ ملیر جیل نا صرف سنگین کرپشن اور ناجائز پیسے کمانے کی فیکٹری ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ قیدیوں کے ساتھ غیر انسانی برتاو کرنے کی آماج گاہ ہے تو کچھ غلط نہ ہوگاڈی آئی جی اور آئی جی جیل خانہ جات کو معاملے کا نوٹس لینا چاہیے۔
0 Comments
Post a Comment