کراچی کے متعدد علاقوں میں گیس کی طویل لوڈشیڈنگ اور کم پریشر کے باعث شہری  چولہا جلانے کے لیے لکڑیاں اور اپلے جلانے پر مجبور ہیں تو دوسری جانب سوئی سدرن گیس کمپنی کے ایک ترجمان نے اس کا ذمہ دار گیس کمپریسرز کو قرار دیا ہے۔

کراچی (رپورٹ :حافظ محمد قیصر) پاکستان کے سب سے بڑے شہر اور تجارتی مرکز کراچی میں گیس کا بحران شدت اختیار کرگیا ہے اور شہر کے متعدد علاقوں میں گیس کی طویل لوڈشیڈنگ اور کم پریشر کے خلاف شہریوں کی جانب سے احتجاج معمول بنگئے ہیں،ایک طرف شہری گھر کا چولہا جلانے کے لیے گیس کے متبادل ڈھونڈ رہے ہیںتودوسری جانب  سوئی سدرن گیس کمپنی نے اپنی ایک ذیلی ویب سائٹ کے ذریعے گھریلو صارفین کو ایل پی جی سلینڈرز فروخت کرنے شروع کردیے ہیں۔ملیرکے علاقے شاہ لطیف ٹائون کے رہائشی عبدالحمید  نے وضاحت نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ حکومت کہتی ہے کہ سردی کے باعث گیس کے استعمال میں اضافہ ہوتا ہے، تو لوگوں کو گیس نہیں ملتی، مگریہاں پرتو سردیوں سے کئی مہینے پہلے سے ہی گیس کی لوڈشڈنگ ہورہی ہے۔

عبدالحمید نے بتایا کہ وہ کرائے کے مکان میں رہتے ہیں اور گیس کا متبادل ایل پی جی(مائع پیٹرولیم گیس)نہیں خرید سکتی یہی وجہ ہے کہ چولہا جلانے کے لیے لکڑیاں خریدنے پر مجبور ہیں تاہم انہوں نے بتایا کہ گیس نہ ہونے کی وجہ سے جہاں ایل پی جی سلینڈر مہنگا ہوگیا ہے، وہیں لکڑی کی قیمت میں بھی اضافہ ہوگیا ہے۔

اسی طرح چنیسر گوٹھ محمود آباد کی رہائشی  سماجی تنظیم کی کارکن خاتون گل بانو خاصخیلی نے وضاحت نیوز کو بتایا کہ گیس کی طویل لوڈشیڈنگ کے بعد لوگ ایل پی جی کے سلینڈر مہنگے داموں خریدنے پر مجبور ہیں، صرف تین دن میں ایل پی جی کی قیمت 210 روپے فی کلوگرام سے 220 روپے ہوگئی ہے اور میرے گھر میں صرف چھ افراد  ہیں، مگر میں نے ایک مہینے میں 25سو روپے کی ایل پی جی خریدی ہے۔

کراچی سوئی گیس بحران ۔۔۔۔کراچی کے شہریوں کو شدید اذیت کا سامنا

انہوں نے مزید بتایا کہ گیس لوڈشیڈنگ صرف سردیوں میں نہیں، بلکہچنیسرگوٹھ  میں گذشتہ کئی ماہ سے جاری ہے اور صرف رات کو 12 بجے سے صبح چھ بجے تک گیس آتی ہے، جس کا پریشر بھی کم ہوتا ہے چنیسر گوٹھ سمیت لیاری، کیماڑی، ناظم آباد، گلشن اقبال، اورنگی اور کورنگی،ملیر سمیت کراچی کے متعدد علاقوں میں گھریلو صارفین کو گیس کی لوڈشیڈنگ اور کم پریشر کا سامنا ہے۔

کراچی میں گیس کی شدید قلت کے بعد جہاں ایل پی جی سلینڈر اور لکڑیوں کو ایندھن کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے، وہاں کئی کم آمدنی والے علاقوں بشمول شیرشاہ کے علاقے جہان آباد، مچھر کالونی اور ابراہیم حیدری میں گوبر کے اپلوں کو ایندھن کے طور پر استعمال کرنے کا رجحان بھی بڑھ رہا ہے۔  

وفاقی وزارت توانائی نے کراچی کے شہریوں  سے معذرت کرلی

دوسری جانب پاکستان کی وفاقی وزارت برائے توانائی نے کراچی میں گیس کی لوڈشیڈنگ پر صارفین سے معذرت کی ہے اور اپنے آفیشل ٹوئٹر اکاونٹ پر وزارت برائے توانائی کی جانب سے کہا گیا ہے کہ  ہر سال سردیوں میں سوئی گیس کمپنیاں چند صنعتی شعبوں میں گیس کی لوڈشیڈنگ کرکے ترجیحی سیکٹرز(بشمول گھریلو صارفین)کو گیس فراہم کرتی ہیںلیکن  اس سال سندھ ہائی کورٹ نے سوئی گیس کمپنی کو صنعتی صارفین کی لوڈشیڈنگ پر حکم امتناعی جاری کر رکھا ہے، جس کی وجہ سے کراچی کو گیس کی فراہمی میں مشکل کا سامنا ہے ہم صارفین سے اس تکلیف کے لیے معذرت خواہ ہیں اور معزز عدالت عظمی میں اپنا موقف اگلی تاریخ پر بھرپور انداز میں پیش کریں گے۔

کراچی سوئی گیس بحران ۔۔۔۔کراچی کے شہریوں کو شدید اذیت کا سامنا

کراچی کے شہریوں کا کہنا ہے کہ گیس کی لوڈشیڈنگ کے بعد اکثر لوگ روٹیاں گھر پر نہیں پکا سکتے اس لیے وہ تندور سے روٹی لینے پر مجبور ہیں، جبکہ گیس کی قلت کے باعث تندور والے بھی ایندھن کے طور پر لکڑی کا استعمال کرتے ہیں تو انہوں نے روٹی کی قیمت بھی بڑھا دی ہے۔  

شہریوں  نے سوئی سدرن گیس کمپنی پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ کمپنی جان بوجھ کر گیس کی لوڈشیڈنگ کرتی ہے،ان کے مطابق حال ہی میں سوئی سدرن گیس کمپنی نے گھریلو صارفین کو ایل پی جی سلینڈر بیچنا شروع کیا ہے، جس کے اخبارات میں بڑے بڑے اشتہارات دیے جارہے ہیں اورایل پی جی سلینڈر کی بھاری قیمت رکھی گئی ہے اور سلینڈر کی فروخت بڑھانے کے لیے جان بوجھ کر گیس کو بند کیا جارہا ہے۔

کراچی سوئی گیس بحران ۔۔۔۔کراچی کے شہریوں کو شدید اذیت کا سامنا

واضح رہے کہ سوئی سدرن گیس کمپنی اپنے آفیشل ٹوئٹر اکانٹ پر کراچی کے شہریوں کو کمپنی کے سلینڈر خریدنے کے لیے تشہیر مہم بھی چلا رہی ہے اس مقصد کے لیے ایس ایس جی سی ایل پی جی ڈاٹ کام کی ویب سائٹ بھی بنائی گئی ہے جس پر مختلف اخبارات میں چھپے اشتہارات کی نقول کے مطابق اپریل 2021 میں کراچی شہر میں 11 اعشاریہ آٹھ کلوگرام کے ایل پی جی سلینڈر کو بھرنے کی قیمت 1572 تھی جو کہ دسمبر میں2ہزارروپے تک بڑھ گئی ہے۔

تاہم شہریوں کو ایس ایس جی سی سے سلینڈر خریدنے کے لیے ہزاروں روپے ڈیپازٹ کرانے پڑیں گے کمپنی کے مطابق 11 اعشاریہ آٹھ کلوگرام کے ایل پی جی سلینڈر کے لیے پانچ ہزار روپے ایڈوانس دینا ہوگا، کیوں کہ کمپنی اپنے سلینڈر کے علاوہ کسی اور کمپنی کے سلینڈر میں گیس فل نہیں کرتی ہے ۔  

اس حوالے سے رابطہ کرنے پر سوئی سدرن گیس کمپنی کے ایک ترجمان نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پربتایاکہ کراچی میں ایل پی جی سلینڈر گھریلو صارفین کو بیچنے کی تصدیق کرتاہوں ان کا مزید کہنا تھاکہ ایل پی جی سلینڈر سوئی سدرن کمپنی نہیں بلکہ ذیلی کمپنی ایس ایس جی سی ایل پی جی فروخت کر رہی ہے اس کمپنی نے سوئی سدرن سے درخواست کی تھی کہ انہیں ایل پی جی سلینڈر بیچنے کی اجازت دی جائے چوں کہ وہ سائنسی طور پر محفوظ سلینڈر بیچ رہے ہیں، اس لیے ہم نے انہیں اپنی کمپنی کا نام استعمال کرنے کی اجازت دی ہے۔

مزید بات کرتے ہوئے انکا کہنا تھا کہ  سلینڈر کی فروخت کے لیے جان بوجھ کر گیس کی لوڈشڈنگ کرنے کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ گیس کی کمی اور کم پریشر کی دیگر وجوہات ہیں۔

کراچی میں گیس کی قلت، کم پریشر کا ذمہ دار گیس کمپریسرہے ۔۔۔؟

ترجمان ایس ایس جی سی نے بتایا کہ کراچی شہر میں اس وقت گیس کی ڈیمانڈ 1225 ایم ایم سی ایف ڈی ہے، جو ایس ایس جی سی پورا کر رہی ہے صرف 220 ایم ایم سی ایف ڈی کا شارٹ فال ہے کراچی میں گھریلو صارفین کے لیے زیرو لوڈشیڈنگ ہے، مگر گیس کی طلب میں اضافے کے بعد لوگوں کی جانب سے بڑے پیمانے پر گیس کمپریسر یا سکشن پمپس کے استعمال سے کئی علاقوں میں یا تو گیس مکمل طور پر نہیں آتی یا پھر کم پریشر ہوتا ہے۔

کراچی سوئی گیس بحران ۔۔۔۔کراچی کے شہریوں کو شدید اذیت کا سامنا

صرف کراچی شہر میں گزشتہ ایک ماہ میں گیس کمپریسر کے باعث چار دھماکے ہو چکے ہیں اور  ان دھماکوں کے بعد وہاں سے گیس کمپریسر کے ٹکڑے ملے ہیں،گیس پریشر بڑھانے والے گیس کمپریسر یا سکشن پمپس کا استعمال غیر قانونی اور انتہائی خطرناک ہے اور ان پمپس کو استعمال کرنے والے گھریلو صارفین پر گیس تھیفٹ کنٹرول اینڈ ریکوری ایکٹ کے تحت ایک لاکھ جرمانہ اور چھ ماہ قید کی سزا عائد ہوسکتی ہے ۔ 

آل پاکستان سی این جی ایسوسی ایشن سندھ زون کے مطابق سندھ کے سی این جی اسٹیشنز کو آر ایل این جی پر منتقل کیے جانے کے باوجود آر ایل این جی بھی فراہم نہیں کی جارہی ہے، سوئی سدرن گیس کمپنی نے سی این جی سیکٹر اور لاکھوں صارفین کو دھوکا دیا ہے، جس کی وجہ سے سی این جی سٹیشنز اور صارفین کی اربوں روپے کی سرمایہ کاری ضائع ہو رہی ہے۔