محکمہ داخلہ سندھ کی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صوبے کے شمالی اضلاع میں کالعدم سندھو دیش ریولوشنری آرمی کے حملوں میں شدت آگئی ہے، جس سے چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبوں کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔
محکمہ داخلہ سندھ نے اپنی رپورٹ میں لکھا: ان حملوں میں شدت کے بعد چینی شہریوں کی سکیورٹی اور سی پیک کے تحت سندھ میں چلنے والے منصوبوں کو بھی خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔ اس صورت میں امن و امان کی صورت حال بگڑسکتی ہے۔
....حملوں میں شدت آگئی ہے
سکھر میں تعینات سندھ پولیس کے ایک اعلی افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: سی پیک کے آغاز کے بعد شمالی سندھ میں سندھو دیش ریولوشنری آرمی حملے کیا کرتی تھی، مگر بلوچ شدت پسندوں سے ملنے کے بعد ان کے حملوں میں شدت آگئی ہے۔
سندھ میں رینجرز اور چینی شہریوں پر ہونے والے حملوں کی ذمہ داری بھی سندھو دیش ریولوشنری آرمی نے قبول کی تھی
عسکریت پسندی اور سائبر سکیورٹی پر تحقیق کرنے والے فہد نبیل، جو سینٹر فار سٹریٹجک اینڈ کنٹمپریری ریسرچ، اسلام آباد سے بھی منسلک رہ چکے ہیں، نے انڈپینڈنٹ اردو کو اس حوالے سے بتایا کہ 2015 میں سی پیک کے آغاز کے ساتھ ہی کالعدم سندھو دیش ریولوشنری آرمی نے حملے شروع کر دیے تھے، مگر گذشتہ سال کالعدم اتحاد بلوچ راجی آجوئی سنگر (براس) میں شمولیت کے بعد اس گروہ کے حملوں میں شدت آگئی ہے،حالیہ دنوں میں سندھ میں رینجرز اور چینی شہریوں پر ہونے والے حملوں کی ذمہ داری بھی سندھو دیش ریولوشنری آرمی نے قبول کی تھی۔
شدت پسند گروہوں پر تحقیق کرنے والے صحافی و محقق ضیا الرحمن نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 2010 میں قائم ہونے والے اس گروہ نے 2020 کے وسط تک حملوں میں لوگوں کو نشانہ بنانے کی بجائے اپنی موجودگی دکھانے کے لیے ریاستی املاک کو نقصان پہنچایا۔ ریاستی اداروں کی جانب سے کسی بڑے کریک ڈاں سے بچنے کے لیے بھی یہ گروہ اس وقت لوگوں کو نشانہ بنانے سے گریز کرتا تھا۔
بقول ضیا الرحمن: ماضی میں سندھو دیش ریولوشنری آرمی اور سندھ لبریشن آرمی (ایس ایل اے) سرکاری املاک بشمول سرکاری بینک کے اے ٹی ایم، برانچوں، ریل کی پٹریوں اور بجلی کے کھمبوں کو نقصان پہنچانے کی غرض سے معمولی نوعیت کے دھماکے کرتی تھیں اور ان تنظیموں کی کوشش ہوتی تھی کہ حملوں میں انسانی جانوں کا نقصان نہ ہو۔
مگر جولائی 2020 میں کالعدم اتحاد بلوچ راجی آجوئی سنگر (براس) میں شمولیت کے بعد سندھو دیش ریولوشنری آرمی کے حملوں کی نوعیت میں تبدیلی آئی اور اب یہ تنظیم باقاعدہ تخریبی سرگرمیوں میں سندھ میں مقیم پنجابی اور پشتو بونے والوں کو بھی نشانہ بنارہی ہے۔
براس یا بلوچ نیشنل فریڈم موومنٹ 2018 میں قائم ہوئی تھی۔ اس مسلح اتحاد میں چار بلوچ مزاحمتی کالعدم تنظیمیں بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) بشیر زیب بلوچ گروپ، بلوچ لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف)، بلوچ ری پبلکن آرمی (بی آر اے) گلزار امام گروپ اور بلوچ ری پبلکن گارڈز (بی آر جی) شامل ہیں جبکہ 2020 میں سندھو دیش ریولوشنری آرمی بھی اس اتحاد میں شامل ہوگئی۔
اینس سو ستر سے 2019 تک دنیا بھر میں ہونے والے شدت پسند حملوں کا مکمل ریکارڈ رکھنے والی امریکہ کی میری لینڈ یونیورسٹی سے منسلک ادارے گلوبل ٹیرارزم ڈیٹا بیس کے ریکارڈ کے مطابق سندھی قوم پرست شدت پسند گروپ سندھو دیش ریولوشنری آرمی نے نومبر 2010 سے جنوری 2019 تک نو سالوں میں 61 شدت پسند حملے کیے اور 16 اگست 2013 کو سندھ کے شہر کوٹری میں ایک بس پر بندوق حملے کے علاوہ ان تمام حملوں میں دھماکہ خیز مواد کا استعمال کیا گیا جبکہ زیادہ تر حملے ریلوے ٹریک پر کیے گیے۔
گذشتہ سال 2020 میں سندھو دیش ریولوشنری آرمی کو سرکاری طور پر کالعدم قرار دیا گیا تھا۔ مئی 2020 میں حکومت پاکستان نے دیگر کئی مذہبی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر بنی شدت پسند تنظمیوں سمیت سندھ کی قوم پرست جماعتوں جیے سندھ قومی محاذ (جسقم آریسر گروپ)، سندھو دیش لبریشن آرمی کے ساتھ ساتھ سندھو دیش ریولوشنری آرمی کو بھی پاکستان مخالف سرگرمیوں اور تخریب کاری کے الزام میں انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کے تحت کالعدم قرار دے دیا تھا۔
رواں سال چار افراد کو انتہائی مطلوب افراد کی فہرست میں شامل کیا گیا۔
رواں سال اس شدت پسند تنظیم کے چار افراد کو انتہائی مطلوب افراد کی فہرست میں بھی شامل کیا گیا۔ جون 2021 میں سندھ کے محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) نے مختلف جرائم میں انتہائی مطلوب افراد کے کوائف پر مشتمل ریڈ بک کے نویں ایڈیشن کے حصہ سوئم میں بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) اور لیاری گینگ وار سے منسلک عسکریت پسندوں سمیت سندھودیش لبریشن آرمی (ایس آر اے) کے چار افراد کے نام شامل کرتے ہوئے انہیں انتہائی مطلوب قرار دیا تھا۔
0 Comments
Post a Comment