نچلی سطح پر اقتدار کی منتقلی اور عوام کو بنیادی سہولیات فراہم کرنا ہر حکومت کا حق بنتا ہے،بلدیات جمہوریت کی اکائی ہوتی ہے جس سے عام آدمی کو بھی فوائد حاصل ہوتے ہیں اور مقامی نمائندے ہر فرد کا کام فوری کرواتے ہیں

حلقہ بندیاں اور بلدیاتی الیکشن

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے ابتدائی ایام کچھ بہتر تھے کیونکہ اس دوران حکومت نے تجربات کے لیے نئے منصوبوں پر کام کیا تاکہ عوام زیادہ سے زیادہ فوائد حاصل کر سکیں،پاکستان سیٹزن پورٹل،اوپن ڈور پالیسی،لنگر خانے اور متعدد ایسے منصوبے جن سے عوام متفید ہوسکے لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیا سابقہ و موجودہ تمام منصوبے ناکام ہوتے دیکھائی دینے لگے بلکہ ملک بھر کے متعدد ضمنی الیکشن میں موجودہ حکومت کے امیدوار بری طرح سے شکست سے دو چار ہوئے،اب موجودہ حکومت کا آخری سال ہے جس میں حکومت کی کوشش ہے کہ ایسے کام کیے جائیں جس سے آنے والے دور میں بھی دوبارہ اقتدار مل سکے

لیکن پچھلے چار سالوں میں کوئی بھی ایسا کام حکومت نہیں کرسکی جس سے دوبارہ وہ اقتدار میں رہ سکے،منہگائی اور بے روزگاری نے عام آدمی کو ذلیل و خوار کرکے رکھ دیا ہے قصہ مختصر کہ کوئی بھی منصوبہ جو کہ قابل ذکر جس میں عوام کی بھلائی کے لیے حکومت نے کام کیا ہو وہ یاد نہیں،کرپشن ختم کرتے کرتے کرپشن کا بہاؤ تیز ہوگیا ہے،غریب بیچارہ خودکشیاں کرنے کو تیار ہے،اب حکومت کا آخری سال ہے جس میں پہلے مرحلے میں بلدیاتی الیکشن کے لیے نئی حلقہ بندیاں کی گئی ہیں اگر کبیروالا کے قومی و صوبائی حلقہ کی بات کی جائے تو یہاں پر نئی حلقہ بندیوں سے سید گروپ کی جیت کے امکانات واضح دیکھائی،ممبر صوبائی اسمبلی ڈاکٹر سید خاور علی شاہ کی سیاسی بصیرت کی روشنی میں نئی حلقہ بندیاں کی گئی ہیں اور متعدد یونین کونسلوں کے مافیاز کو دوسری یونین کونسلوں میں اٹیچ کیا گیا ہے 

لیکن کافی ایسی یونین کونسلز بھی ہیں جن میں ہراج گروپ کو فائدہ پہنچا ہے نئی حلقہ بندیوں میں عوام تو کافی حد تک خوش نظر آتی ہے،شنید ہے کہ آنے والا بلدیاتی الیکشن جماعتی بنیادوں پر ہوگا اگر حکومت نے اپنے سابقہ ادوار میں عوام دوست پالیسیوں پر عمل کیا ہوگا تو یقیناً کامیابی مقدر بنے گی نہیں تو رسوائی،عوام کی رائے ہے کہ بلدیاتی الیکشن ہر صورت ہونے چاہیے تاکہ اقتدار کی منتقلی نچلی سطح تک پہنچ سکے،بلدیاتی الیکشن کا اعلان اور نئی حلقہ بندیاں ہوتے ہی سیاسی ڈیرے دوبارہ سے آباد ہوگئے ہیں،سیاست دانوں نے ناراض ووٹرز کو منانے کے لیے مختلف حربے استعمال کرنے شروع کردیے ہیں،نئی حلقہ بندیوں سے نئے امیدوار بھی سامنے آ رہے ہیں اور الیکشن کمپین شروع کررکھی ہے 

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر حکومت نے اپنے دور اقتدار میں اچھے اور غریب پرور کام کیے ہوں تو بلدیاتی الیکشن میں جیت مقدر ہوگی ورنہ اگر دیکھا جائے تو پاکستان تحریک انصاف کے اقتدار میں ہی متعدد ضمنی الیکشن میں اقتدار گروپ بری طرح شکست سے دو چار ہوا ہے۔پاکستان پیپلز پارٹی،مسلم لیگ ق اور مسلم لیگ نواز شریف گروپ بھی اکٹھے ہوگئے ہیں اور حکومت کے خلاف احتجاج اور عدم اعتماد تحریک چلانے کی بھر پور کوشش کررہے ہیں،اگر یہ تینوں ملکی سیاسی جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہوکر بلدیاتی الیکشن اور عام انتخابات میں حصہ لیتے ہیں تو پاکستان تحریک انصاف کی حکومت بری طرح ناکام ہوگی 

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی ناکامی کی بنیادی وجہ صرف یہ ہیں کہ الیکشن کے دنوں کیے گئے وعدے سب جھوٹ ثابت ہوئے اور منہگائی و بے روزگاری عام ہوئی،اگر پاکستان تحریک انصاف کی حکومت عوام کے کام کرتی تو ممکن ہے کامیابی کی ایڈونس خوش خبری ہوتی،بلدیاتی الیکشن میں میرے خیال کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کی حکومت بری طرح ناکام ہوگی اور آئندہ عام انتخابات میں بھی ناکامی کے واضح امکانات موجود ہیں،حکومت کو چاہیے تھا کہ آخری سال میں تو عوامی و فلاحی منصوبوں پر کام کرے تاکہ پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار بلدیاتی الیکشن میں کچھ جیت کا ذہن رکھتے۔نئی حلقہ بندیوں سے متعدد امیدوار متاثر ہوئے ہیں اور اب اپنی متعلقہ یونین کونسلوں میں اپنے ووٹ اندراج کروا رہے

 کچھ امیدوار پارٹی ٹکٹ جاری ہونے سے پہلے ہی امیدوار بن بیٹھے ہیں اور مختلف طریقوں سے اپنی الیکشن کمپین جاری رکھے ہوئے ہیں اب عوام بھی سمجھ دار ہے وہ بھی اچھے و برے کی پہچان رکھتی ہے فصلی بٹیروں کو بھی یاد رکھتی ہے اور سدا بہار عوامی نمائندے کو بھی دل و جان سے محبت کرتی ہے بحرحال بلدیاتی الیکشن ہو یا عام انتخابات اس میں وہی جماعت یا نمائندے کامیاب ہوتے ہیں جو عوام دوست ہوتے ہیں۔