کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ ملک کے مختلف حصوں سے اکثر نئے صوبے قائم کرنے کی آوازیں کیوں اٹھنے لگتی ہیں؟ ان کے پیچھے کیا وجوہ ہوسکتی ہیں؟
گو نئے انتظامی صوبے اور یونٹس کسی حد تک انتظامی صورتحال سے نمٹنے کیلیے فائدہ مند ہیں لیکن اگر ہم اتنا دل کشادہ نہیں کرسکتے تو کوئی اور متبادل طریقہ ان معاملات کو سلجھانے کا ڈھونڈ سکتے ہیں؟پاکستان دنیا کا پانچواں کثیر آبادی والا ملک ہے صرف پنجاب کی ہی آبادی گیارہ کروڑ ہے ذرا سوچیے اگر پنجاب ایک ملک ہوتا تو آبادی کے تناسب سے دنیا میں بارہویں نمبر پر ہوتا یا کراچی جو 2017 کی متنازع مردم شماری کے بعد تقریبا! ایک کروڑ ساٹھ لاکھ آبادی کے ساتھ دنیا کا تیسرا بڑا شہر ہے۔
اگر اس شہر کی آبادی کی درست گنتی کی جائے تو ڈھائی کروڑ آبادی کے ساتھ دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے چین کے شہر شنگھائی سے بھی بازی لے جائے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو پاکستان کے وسیع آبادی والے شہروں کے ہر کوچے تک انتظامی معاملات اور بنیادی سہولیات کی فراہمی، یا چھوٹے شہروں، گاں، گوٹھوں تک بنیادی سہولیات اور ان کے علاقائی معاملات کو سمجھنا اور سلجھانا واقعی آسان کام نہیں ہے۔
لہذا جب لوگوں کے بنیادی مسائل حل نہیں ہوتے، اور جب حکمرانوں اور انتظام سنبھالنے والوں تک ان کو رسائی حاصل نہیں ہوتی تو آہستہ آہستہ یہ محرومیاں انقلابی صورتحال اختیار کرنے لگتی ہیں، اور لوگ اپنے حق کیلیے سڑکوں پر احتجاج یا دھرنوں کی صورت میں نکلنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ اور اگر پھر بھی سنوائی نہ ہو تو کہیں غصے میں علیحدگی، کہیں نئے صوبے کی مانگ، جس کی مثال جنوبی پنجاب صوبے کیلیے کی جانے والی جنوبی پنجاب کے لوگوں کی جدوجہد ہے، یا گورنر راج لگانے کی خواہش یا سول نافرمانی جیسی صورتحال جنم لینا شروع ہوجاتی ہے۔
ایسی صورتحال کا حل کس طرح ممکن ہوسکتا ہے۔۔۔۔۔؟
پاکستان کے آئین میں نیا صوبہ بنانا پڑوسی ملک بھارت کی نسبت مشکل ہے، جہاں کم از کم کاغذ پر اس امر کیلیے مرکز کے ممبران کی عام اکثریت اور زیر بحث صوبے کی حمایت کافی ہے۔ جبکہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 239(4) کی رو سے ملک میں نیا صوبہ قائم کرنے کیلیے آئینی ترمیم ضروری ہے۔ جس کیلیے نہ صرف قومی اسمبلی اور سینیٹ میں دو تہائی اکثریت سے بل کا پاس ہونا ضروری ہے بلکہ صدر مملکت کے سامنے بل پیش ہونے سے پہلے جو صوبہ علیحدگی کیلیے زیر بحث ہے، اس کی صوبائی اسمبلی سے بھی دو تہائی اکثریت سے نئے صوبے پر بل پاس کروانا ضروری ہے۔ اور یہ بات سمجھنے والی ہے کہ بالخصوص 2010 میں اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے صوبوں کو انتظامی اور مالی خودمختاری ملنے کے بعد کوئی صوبہ نہیں چاہتا کہ اس کے صوبے کیلیے وفاق سے آنے والے بجٹ میں کسی بھی وجہ سے کوئی کمی آئے۔
اگر دیکھا جائے تو چاہے جنوبی پنجاب سے سرائیکی صوبہ کی مانگ ہو، یا سندھ سے مہاجر صوبہ یا خیبر پختونخوا سے ہندکو یا بلوچستان سے پشتون صوبے کی مانگ، ان کے پیچھے وجوہ، ان علاقوں اور طبقوں کا سماجی، معاشی اور انتظامی استحصال ہے۔ جس کی بہت بڑی وجہ ان علاقوں پر رائج حکمرانوں کا تعلق ان علاقوں سے نہ ہونا ہے، یا اگر ان علاقوں میں جو مقامی یا بلدیاتی حکومتیں قائم ہیں وہ مالی طور پر اس قدر بے اختیار ہیں کہ مسائل کا حل ان کے بس کی بات نہیں۔
اس بے اختیاری کی وجہ یہ ہے کہ صوبے اٹھارہویں ترمیم سے ملنے والی صوبائی خودمختاری اور این ایف سی ایوارڈ تو خوشی خوشی رکھ لیتے ہیں لیکن جب بات اسی آئین کے آرٹیکل 140 (الف) کے تحت مالی، سیاسی اور انتظامی اختیارات ریاست کے تیسرے اہم ترین ستون یعنی مقامی حکومتوں تک منتقلی کی آتی ہے، جن کا کام اپنے شہروں میں ترقیاتی کام کرنا ہے، تو تمام صوبے حیلے بہانے کرتے نظر آتے ہیں۔
ذرا سوچیے اگر صوبے یہ اختیارات شفاف نیت کے ساتھ شہری حکومت کو منتقل کردیں تو دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی طرح پاکستان میں بھی تمام شہری حکومتوں کے پاس اپنے شہر کی صحت و صفائی، تعلیمی نظام، ٹرانسپورٹ، پولیس، شہر کا ماسٹر پلان بنانے اور اس پر عمل درآمد کرنے کا اختیار بھی ہو اور وسائل بھی موجود ہوں۔ تو آخر اسی علاقے کے منتخب کردہ لوگ اپنے ہی شہر کیلیے کام کیونکر نہیں کریں گے؟ یا کام نہ کرنے کی صورت میں علاقائی کونسلر تک علاقہ مکینوں کی رسائی کس قدر آسان ہوگی؟
اور علاقے کے مسائل علاقے میں ہی حل ہوجائیں گے کم ازکم اپنے مسائل کیلیے وزیراعلی یا پارلیمان ہاس کے باہر دھرنوں کی ضرورت ہی نہ پیش آئے گی۔
لیکن یہ تمام باتیں ہمارے ملک میں یوں ممکن نہیں کہ اگر تمام اختیارات نچلی سطح تک منقل کردیے جائیں تو ایوان میں بیٹھے ارکان اگلی ا الیکشن کیمپین کے وقت سڑکیں، اسکول، کالج اور اسپتال بنوانے کے وعدے کر کے عوام سے ووٹ کیسے مانگیں گے؟ وہ کیونکر عوام کو یہ سچ بتائیں کہ ان کا کام فقط پارلیمان میں بیٹھ کر قانون سازی کرنا ہے۔۔۔؟
یہی وجہ ہے کہ اکثر اوقات دفتر سنبھالنے والی نئی صوبائی حکومتیں یا تو پہلے سے موجودہ بلدیاتی حکومتوں کو تحلیل کردیتی ہیں یا پھر صوبائی اسمبلی میں بل پاس کرکے بلدیاتی حکومتوں کو قدرے حد تک بے اختیار کردیتی ہیں۔
غور طلب بات یہ ہے کہ راستے کی رکاوٹ تو وفاق کیلیے بھی صوبائی حکومت ہے لیکن کیونکہ صوبائی حکومتوں کو آئینی تحفظ حاصل ہے لہذا وفاق کسی بھی صوبے سے کوئی ایک اختیار بھی نہیں لے سکتا۔ لیکن کیونکہ بلدیاتی حکومتوں کے اختیارات کو آئین میں تین سطروں سے زیادہ جگہ نہیں دی گئی، نہ ہی اس کے ماتحت آنے والے محکمے، آبادی کے تناسب سے بجٹ میں ان کا حصہ، پی ایف سی ایوارڈ کا اجرا، بروقت الیکشن اور الیکشن کے طریقہ کار کو آئین میں وفاق اور صوبائی حکومتوں کے اختیارات کی طرح تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔
آج اگر آئین میں جس طرح صدر، مجلس شوری، وزیراعظم اور ان کی کابینہ، گورنر، وزیراعلی اور ان کی پارلیمان کے طرح ناظم اعلی اور یوسی چیئرمین تک کو ملنے والے اختیارات، ان کے ماتحت آنے والے محکموں کے نام آئین میں شیڈول لسٹ کے اضافے کے ساتھ، آئین میں کھل کر بیان کردیا جائے تو پھر کوئی صوبائی حکومت جب دل چاہا، بلدیاتی حکومتوں کے ماتحت آنے والے محکمے نہ ہی اپنی تحویل میں لے سکے گی اور نہ ہے ان کے اختیارات کم کرنے کیلیے آئے دن اپنی مرضی کے آرڈیننس نکال سکے گی۔ اور نہ ہی کوئی سیاسی جماعت ان معاملات پر دھرنے دے کر پوائنٹ اسکورنگ کرسکے گی۔
یہ آئینی ترامیم کرنا نئے صوبے بنانے کے مقابلے میں قدرے آسان بھی ہے، کیونکہ اس کا بل صرف قومی اسمبلی اور سینیٹ میں عام اکثریت حاصل کرنے کے بعد صدر مملکت کے دستخط سے پاس ہوجائے گا۔ فیصلہ آپ خود کرلیجئے۔
0 Comments
Post a Comment