استاد ایک چراغ ہے جو تاریک راہوں میں روشنی کے وجود کو برقرار رکھتا ہے،استاد وہ پھول ہے جو اپنی خوشبو سے معاشرے میں امن،مہر و محبت و دوستی کا پیغام پہنچاتا ہے،استاد ایک ایسا رہنما ہے جو آدمی کو زندگی کی گم راہوں سے نکال کر منزل کی طرف گامزن کرتا ہے

استاد قوم کا محسن :تحریرچوہدری طلحہ کمبوہ

انسان کی پہلی درسگاہ اس کی ماں کی گود ہے جہاں وہ پہلا لفظ ادا کرنا سیکھتا ہے،انسان دنیا میں کبھی تنہا وقت نہیں گزارتا وہ کئی ناتوں کے ساتھ جڑا رہتا ہے ان میں کچھ رشتے اور تعلق خون کے ہوتے ہیں جبکہ بہت سے رشتے اور تعلق روحانی و اخلاقی اور معاشرتی طور بنتے ہیں،ان میں ایک رشتہ استاد کا بھی ہے استاد کو معاشرے میں روحانی والدین کا درجہ حاصل ہے اسلام میں استاد کا رتبہ والدین کے رتبے کے برابر قرار دیا گیا ہے۔

 کیونکہ دنیا میں والدین کے بعد اگر کسی پر بچے کی تربیت کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے تو وہ ہمارے استاد ہیں کیونکہ استاد ہی ہیں جو دنیا میں جینا اور رہنا سیکھاتے ہیں اور کتابوں سے علم سمجھنے میں مدد دیتے ہیں اس لحاظ سے استاد واجب الاحترام شخصیت ہیں استاد کی تعریف اگر لفظوں میں کی جائے تو غلط نہ ہوگا،ایک استاد لوہے کو تپا کر کندن پتھر کو تراش کر ہیرا بناتا ہے،استاد معمار بھی،مینار بھی اوریہ اقوام کامحسن بھی ہے ایک زمانہ تھا جب علم کی تلاش میں طالب علم میلوں کا سفر پیدل طے کرتے تھے سالہا سال ملکوں میں گھومتے گھر بار سے دور رہ کر اپنے علم کی پیاس کو پورا کرتے تھے۔

استاد کی سزاں کو جھیلتے تب جاکر نگینہ بنتے مگر اس دور میں طالب علم باادب اور با تہذیب ہوتے تھے،استاد کے قدموں میں بیٹھنا،ان کی باتوں کو خاموشی سے سننا،مذاق اڑانا تو دور کی بات نظر اٹھا کر بات کرنے سے بھی ڈرتے تھے،وقت نے اڑان بھری تو انسان بھی کئی ترقی کی منزلیں طے کرتا چلاگیا اور اگر وقت بدلا تو تہذیب اور آداب کے انداز بھی ساتھ ساتھ بدلتے گئے،چنانچہ یہ حقیقت ہے کہ آج کے دور میں طالب علم استاد کو تنخواہ دار اور ملازم سمجھتا ہے،یہی وجہ سے کہ آج علم ناپید ہوتا جا رہا ہے اتنے کالج،سکول اور یونیورسٹیاں ہونے کے باوجود معاشرے میں اخلاقیات اور تہذیب کا کوئی نام نہیں،اسلام نے مسلمانوں پر علم فرض قرار دیا ہے وہیں اسلام میں استاد کومعزز رتبہ دیا ہے تاکہ اس کی عظمت سے علم کا وقار بڑھ سکے۔

علم کی قدر اس وقت ممکن ہے جب معاشرے میں استاد کو عزت دی جائیگی اور ہمیشہ و ہ طالب علم ہی کامیاب ہوتے ہیں جو استاد کا احترام کرتے ان کی عزت کرتے ہیں،اگر حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو استاد کی حیثیت،اہمیت اور مقام مسلم ہے،کہ استاد نونہالان قوم کی تعلیم و تربیت کا ضامن ہوتا ہے استاد ہی قوم کے نوجوان کو علوم و فنون سے آراستہ و پیراستہ کرتا اور اس قابل بناتا ہے کہ وہ ملک اور قوم کی ذمہ داریا ں احسن طریقے سے سر انجام دے سکے استاد جہاں نوجوانوں کی اخلاقی و روحانی تربیت کرتا ہے وہاں وہ ان کی مختلف علمی،سائنسی،فنی اور پیشہ وارانہ مہارتوں کا سامان کرتا ہے لہذا استاد کا احترام ہر طالب علم پر فرض ہے استاد پوری قوم کا محسن ہے استاد روحانی باپ ہے استاد کا احترام دل سے کرنا چاہیے ہم نے ایسے لوگ بھی دیکھے ہیں جو کہ کسی استاد کے پاس کچھ نہیں پڑھے لیکن،لفظ استاد اور شخصیت کا دل و جان سے احترام کرتے ہیں،حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا جس نے مجھے ایک حرف پڑھایا گویا اس نے مجھے اپنا غلام بنا لیا،استاد انسانیت کا ستون بھی ہیں اور بنیاد بھی یہی قوم کے اصل معمار ہیں نوجوانوں کی سیرت کو سنوارتے ہیں ان کو مستقبل کے چیلنجوں کا مقابل کرنے اور ان کی کردار سازی میں اہم فریضہ سر انجام دیتے ہیں۔

استاد نے اپنے علم کے ذریعے عقل کو علم سے روشن کرنے کا ہنر سکھایا اوراپنی انتھک محنت سے نوجوانوں کو محقق،ڈاکٹر،انجینئرز،سائنسدان اور مختلف شعبہ ہائے زندگی میں نمایاں کارہائے منصبی پر فائز کرتے چلے آئے ہیں استاد کا ہمارے معاشرے میں بہت مقام ہے جس سے اسلام میں نہیں دنیا کا ہر مذہب اس کا احترام کرتا ہے کائنات کے سب سے بڑے استاد ہمارے پیارے آخری نبی اکرم ۖ ہیں جنہوں نے کائنات کو علم سے روشناس کیا ایک موقع پر حضور پاک ۖ نے فرمایا کہ،،میں علم کا شہر ہوں اور علی  اس کا دروازہ ہے،،تاریخ کے اوراق کھنگالیں تو معلوم ہوگا کہ ہر دور میں استاد کو والدین کے بعد سے زیادہ رتبہ دیا گیا،بادشاہ ہوں یا سلطنتوں کے شہنشاہ،خلیفے ہوں یا ولی اللہ سبھی اپنے استاد کے آگے ادب و احترام کے تمام تقاضے پورے کرتے نظر آتے ہیں لیکن موجودہ دور میں صورت حال یکسر بدل چکی ہے 

ہمارے حکمرانوں نے تعلیمی اداروں میں،،مار نہیں پیار،، کا بل اسمبلی میں پاس کرکے استاد کے احترام کا بیڑہ غرق کردیا ہے اب صورت حال یہ ہے کہ استاد اپنے شاگرد کوسزا تو کیا ان کے سامنے اونچا نہیں بول سکتا،متعدد تھانوں میں شاگرد کی مدعیت میں استاد پر مقدمات درج ہوئے ہیں اگر یہی صورتحال رہی تو ہمارا معاشرہ خاک ترقی کرے گا۔

 جس قوم میں استاد کا احترام نہیں رہتا وہاں پر معاشرے ترقی نہیں کرسکتا وہاں اس قوم کا مقدر زوال ہی ہوتا ہے پہلے والے ادوار کو اگر بغور دیکھیں تو استاد کا کتنا ادب و احترام تھا لیکن افسوس صد افسوس آج کے اس ترقیاتی دور میں استاد کا کوئی احترام نہیں ہے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں طلبا شر عام نشہ کرتے دیکھائی دیتے ہیں او رتھوڑی سی بات پہ استاد کی عزت خاک میں ملا دیتے ہیں استاد علم کا سر چشمہ ہے قوموں کی تعمیر و ترقی میں استاد کا رول اہمیت کا حامل ہوتا ہے لہذا ہمیں اگر ترقی کی منازل طے کرنی ہیں تو استاد کا احترام کریں۔