ہم بھی عجیب قوم ہیں،بلکہ قوم بھی کیا،ہم تو آج تک اس بات کو بھی طے نہیں کر پائے کہ قوم کہتے کسے ہیں۔

کشمیر ڈے،نعرے،نقریریں اور ریلیاں:ریاض شاہد خان پنیاں ایڈووکیٹ

پتہ نہیں چند محدود سرحدوں کے اندر محصور کچھ مخصوص گروہوں پر مشتمل افراد کو قوم کہیں یا ان گونجتے نعروں کی بنیاد پر خود کو پرکھیں جو تقسیم برصغیر بلکہ سچ کہیں تو تقسیم پنجاب کے وقت پورے ہندوستان میں گونج رہے تھے کہ پاکستان کا مطلب کیا،لا الہ الا للہ اور مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ، یا اس سبز ہلالی پرچم تلے...ہم ایک ہیں ،سب ایک ہیں۔

اور ان سب نعروں کی اساس مذہب کی بنیاد پر قومیت کی بنیاد رکھتے ہوئے خود کو ایک الگ قوم گرداننے کا اعلان کر رہی تھیاب ہم اپنی اپنی سرحدوں کے حوالے سے خود کو ایک قوم سمجھیں یا اپنے مذہب اسلام کی بنیاد پر خود کو ایک قوم سمجھیں،یہ ابھی تک فیصلہ نہیں ہو سکا۔

تاہم، یہ طے ہے کہ ہم خود کو ایک قوم سمجھتے ہیںاگرچہ کبھی کبھی ہمیں پنجابی،بلوچی،سندھی اور پٹھان ہونے کا بھی زعم ستانے لگتا ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ شائد یہ بھی ساری کوئی  الگ الگ قومیں ہیں لیکن پھر بھی، ہم خود کو ایک قوم مانتے ہیں اور زندہ قوم سمجھتے ہیں۔

چلیں اس بحث سے باہر نکل آتے ہیں کہ اصلیت میں ہم کیا ہیں اور اس بات پر اتفاق کر لیتے ہیں کہ ہم بنیادی طور پر ایک قوم ہی ہیں. لیکن ہم عجیب قوم ہیں، کہ ہم نے اپنے اہم قومی معاملات کیلئے کچھ دن تقسیم کر کے مخصوص کر رکھے ہیں. اپنے ملک کی سالمیت کے مسائل ہوں، سرحدی معاملات ہوں یا سرحدوں کی حد بندیوں کے معاملات،ملکی ایٹمی رازوں کے حوالے سے فخر و انبساط سے جھومنا ہو یا ملک کے آدھے  رہ جانے کا سوگ منانا یا کشمیر کے لوگوں کے حق خود ارادیت پر ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنا ہو،ہم نے سبھی ایشوز کو مختلف مخصوص دنوں میں تقسیم کیا ہوا ہے۔

کبھی ہم یوم تکبیر منارہے ہیں تو کبھی یوم کشمیرکبھی ہم یوم پاکستان منارہے ہیں تو  کبھی یوم دفاع پاکستان.اور ان دنوں کی مناسبت سے ہم بطور قوم اپنے وطن اور اپنے ملک کے ساتھ محبت اور یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں اور ان ایام کی مناسبت سے انکے ساتھ جڑے ہوئے مسائل کو اجاگر کرنے کیلئے کوششیں کرتے ہیں.کمال حیرت کی بات یہ ہے کہ ہم ایسے معاملات پر کسی بھی قسم کے عملی اقدامات کا اظہار نہیں کرتے .نہ تو ہماری پارلیمنٹ اس سلسلے میں کسی عملی قانون سازی کی طرف گامزن ہوتی دکھائی دیتی ہے اور نہ ہی ہمارے ملکی ادارے کسی قسم کے عملی فیصلے صادر کرتے ہیں 

بلکہ ایک عجیب قسم کا شورو غوغا بلند ہوتا رہتا ہے.لوگ سڑکوں پر نکل آتے ہیں حلق پھاڑ پھاڑ کے نعرے مارتے ہیں ،چند لیڈر نما لوگ تقریریں کرتے ہیں ،اپنا اپنا خود پسندی کا چورن بیچتے ہیں اور وطن سے محبت کا فرض ادا کر کے اپنے تئیں قوم ہونے کا قرض چکا دیتے ہیںکچھ ایسے ہی مناظر حال ہی میں کشمیر ڈے کے حوالے سے پوری قوم کی طرف سے دیکھنے میں آئے.دن بھر ریلیاں،جلسے ،جلوس ہوتے رہے، نعرے ،تقریریں اور جوش وجذبے سے بھرپور ملے نغموں سے محبت کا اظہار بھی ہوتا رہا۔

کشمیریوں پر ہندوستانیوں کے ظلم و ستم کے سبب ہندوستان سے نفرت اور کھلی دشمنی کا اظہار بھی ہوتا رہا،اور یہ الگ بات کہ شام ہوتے ہی انڈین فلموں اور انڈین گانوں پر پھر سے مست ہونا بھی لازم تھا، بہرحال پوری قوم صرف اس ایک دن میں نعروں اور تقریروں کے ذریعے کشمیر آزاد کروانے کے بعد پورا سال دوبارہ اس دن کے آنے تک بھول کر بھی اس موضوع پر بات نہیں کرے گی.ہم بھی عجیب قوم ہیں۔