امریکی فوج میں پائلٹ کی حیثیت سے خدمات سرانجام دینے کے بعد ریٹائر ہونے والے شاپور موئنیان نے اعتراف کیا ہے کہ انھوں نے امریکہ کی ایوی ایشن ٹیکنالوجی سے متعلق خفیہ معلومات چین کو فروخت کی ہیں۔

امریکی ریٹائرڈ پائلٹ خفیہ معلومات چین کو فروخت کرتا رہا:رپورٹ

امریکی محکمہ انصاف کے مطابق فوج سے ریٹائر ہونے کے بعد 67 سالہ شاپور موئنیان نے فوج کے ساتھ بطور کنٹریکٹر خدمات انجام دی تھیں۔

سابق امریکی فوجی افسر نے دیگر دفاعی ٹھیکیداروں کے ساتھ مل کر امریکی فوج کی ایوی ایشن ٹیکنالوجی سے متعلق معلومات اکٹھی کیں اور انھیں چین کے ہاتھوں ہزاروں ڈالر میں فروخت کیا۔

امریکی محکمہ انصاف نے انھیں امریکہ کے محکمہ ہوم لینڈ سکیورٹی کو اپنے ریکارڈ مجرمانہ کی بابت بھی غلط معلومات فراہم کرنے کا قصوروار ٹھہرایا ہے۔

امریکی ریٹائرڈ پائلٹ خفیہ معلومات چین کو فروخت کرتا رہا:رپورٹ

یف بی آئی کے سین ڈیاگو آفس کی انچارج سپیشل ایجنٹ سٹیسی فو نے کہا ہے کہ ’یہ ایک اور واضح مثال ہے کہ کس طرح چینی حکومت امریکی ٹیکنالوجی کا غلط استعمال کر کے اپنی دفاعی صلاحیتوں میں اضافہ کر رہی ہے۔

وزارت انصاف نے اپنے ایک بیان میں بتایا ہے کہ موئنیان نے امریکہ، جرمنی اور جنوبی کوریا میں بطور ہیلی کاپٹر پائلٹ اپنا کیریئر مکمل کرنے کے بعد سنہ 1977 سے سنہ 2000 کے درمیان امریکی فوج سے منسلک نجی شعبے (ملٹری کنٹریکٹر) میں شمولیت اختیار کی تھی۔

ایک فوجی کنٹریکٹر کے طور پر وہ امریکہ کے محکمہ دفاع سے اپنی سکیورٹی انٹیلیجنس کلیئرنس حاصل کرنے میں کامیاب رہے تھے۔ اسی سکیورٹی کلیئرنس کے باعث وہ بطور ایک سویلین ملازم کے بھی فوج سے متعلق خفیہ معلومات حاصل کرنے میں بھی کامیاب رہے تھے۔

تفتیشی حکام کا کہنا ہے کہ ایک نامعلوم چینی شخص نے موئنیان سے رابطہ کیا تھا اور ابتدا میں انھیں چین کی ہوا بازی کی صنعت کے بارے میں بریف کیا تھا۔

امریکی ریٹائرڈ پائلٹ خفیہ معلومات چین کو فروخت کرتا رہا:رپورٹ

محکمہ انصاف کے حکام کا کہنا ہے کہ اس کے بعد شاپور موئنیان نے اس چینی شخص کے لیے بطور ایک تسلیم شدہ دفاعی کنٹریکٹر کے کام کیا۔ چینی شخص نے خود کو ایک ریکروٹمنٹ کمپنی کے ماہر ایجنٹ کے طور پر پیش کیا تھا۔

حکام کا کہنا ہے کہ شاپور موئنیان چینی حکومت کا تنخواہ دار ایجنٹ تھا جس نے چین کو امریکی ایوی ایشن ٹیکنالوجی فروخت کی تھی۔ حکام کے مطابق انھوں نے قانون شکنی کی اور امریکہ کی پوزیشن کو کمزور کیا، اس لیے انھیں کوئی رعایت نہیں دی جا سکتی۔

تفیش کے مطابق موئنیان نے ہوا بازی سے متعلق اہم اور خفیہ معلومات حاصل کیں اور انھیں پین ڈرائیوز میں منتقل کیا۔

ستمبر 2017 میں موئنیان نے بیرون ملک سفر کیا اور شنگھائی ہوائی اڈے پر چینی حکومت کے اہلکاروں سے ملاقات کی اور انھیں یہ پین ڈرائیو دی جس میں امریکہ کے محکمہ ہوا بازی سے متعلق معلومات موجود تھیں۔

موئنیان نے چینی اہلکاروں سے رابطے کے نمبر اور سامان وغیرہ حاصل کیا تاکہ مستقبل میں اس نوعیت کی خفیہ معلومات الیکٹرانک ذرائع سے ترسیل کی جا سکیں۔ اس کے بعد موئنیان نے اپنی سوتیلی بیٹی کے جنوبی کوریا کے بینک اکاؤنٹ میں اس کام کے عوض ادائیگی کا بندوبست کروایا۔

جنوبی کیلیفورنیا کے ڈسٹرکٹ اٹارنی رینڈی گراسمین نے کہا کہ ’یہ ایک سابق امریکی فوجی کی طرف سے دیا جانا والا دھوکہ ہے۔ اسے برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ امریکہ کو ان مسائل پر گہری تشویش ہے اور وہ اس نوعیت کی سرگرمیوں کی تحقیقات کرے گا۔‘

انھوں نے کہا کہ امریکہ ہر اس شخص کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرے گا جو غیر ملکی حکومتوں کے کہنے پر امریکی ٹیکنالوجی اور خفیہ معلومات چرانے کے لیے کام کر رہے ہیں۔

امریکی محکمہ انصاف کی دستاویزات کے مطابق موئنیان کا ہانگ کانگ اور انڈونیشیا کا سفر، چینی فریق سے ملاقاتیں، موبائل فون اور رقم حاصل کرنا اور سکیورٹی انٹیلیجنس فارم بھرتے وقت اپنے متعلق غلط معلومات فراہم کرنا ان کے جرائم میں شامل ہے۔

دستاویزات کے مطابق مارچ 2017 میں موئنیان نے ہانگ کانگ کا سفر کیا تھا جہاں اُن کی ایک چینی ایجنٹ سے ملاقات ہوئی اور پیسوں کے عوض امریکا میں ڈیزائن یا تیار کیے گئے طیاروں کے بارے میں معلومات اور مواد فراہم کرنے پر اتفاق ہوا تھا۔

موئنیان نے میٹنگ کے دوران تقریباً 7,000 ڈالر سے 10,000 ڈالر لیے تھے۔حکام کے مطابق اس ملاقات اور اس کے بعد کی تمام ملاقاتوں کے دوران موئنیان کو معلوم تھا کہ ان سے ملنے والے افراد حکومت چین کے ملازم ہیں یا چینی حکومت کی ہدایات پر کام کر رہے ہیں۔