دنیا بھر کی جدید فوجیں ٹینک کو معدوم یا پرانا جنگی ہتھیار قرار دیتے ہوئے ماضی کے اس اہم جنگی پلیٹ فارم کو ختم کر چکی ہیں لیکن پاکستان کی بری فوج میدان جنگ میں ایک بنیادی ہتھیار تصور ہونے والے ’الخالد ٹینک‘ منصوبے پر گذشتہ دو دہائیوں کے دوران بھاری سرمایہ کاری کر چکی ہے۔

پاک فوج کی پہچان الخالد ٹینک

یہ دو قسم کے ٹینک ہیں جنھیں چین اور یوکرین کی فنی معاونت کے ساتھ مقامی دفاعی صنعت میں کامیابی سے تیار کیا گیا ہے۔

ٹینک کی یہ دونوں اقسام پاکستان آرمی کی آرمرڈ کور یا توپ خانے کا حصہ ہیں۔ اس کی ایک تیسری قسم ’الخالد دوئم‘ کی تیاری بجٹ مشکلات کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہوئی۔

پاکستان آرمی نے اس منصوبے پر کافی پیسہ خرچ کیا کیونکہ پاکستانی فوج سمجھتی ہے کہ پاکستان کو مشرقی ہمسائے کی طرف سے زمینی مداخلت کا خطرہ لاحق ہے اور اس سوچ کی وجہ جنگی حکمت عملی کی یہ حقیقت ہے کہ انڈین مسلح فوج کا پلڑا روایتی ہتھیاروں کی صلاحیت میں کہیں بھاری ہے۔

پاکستانی فوجی ماہرین سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی دفاعی صنعت نے جدید الخالد ٹینک کی تیسری نسل مناسب تعداد میں تیار کر کے حیران کن کامیابی حاصل کی ہے جس نے پاکستانی علاقے میں انڈین فوج کی مداخلت کو ناکام بنانے کے ہر امکان کو ختم کر دیا ہے۔

پاکستان آرڈیننس فیکٹری کے سابق سربراہ اور فوجی امور کے ممتاز ماہر لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبد القیوم کہتے ہیں کہ ’مناسب تعداد میں الخالد ٹینکس تیار کر کے ہماری ڈیفنس انڈسٹری نے شاندار کارنامہ انجام دیا۔ اب ہمارے پاس 2500 سے زائد ٹینک ہیں اور الخالد ٹینک اس دستے کا بڑا حصہ ہیں۔‘

اگر ماضی پر نظر دوڑائی جائے تو سنہ 1989 میں دیوار برلن کے گرنے کے ساتھ ہی سرد جنگ کے دو حریفوں نے ٹینکوں کی تیاری کا سلسلہ بھی ختم کر دیا تھا۔

سرد جنگ کے ان دو حریفوں میں ایک طرف ’نیٹو‘ یعنی مغربی یورپین اور امریکہ کی قیادت میں دھڑا اور دوسری جانب مشرقی یورپ اور ماسکو کی قیادت میں ’معاہدہ وارسا اتحادی‘ تھے۔

سرد جنگ کی سرحد سے دونوں کی واپسی کے ساتھ ہی دونوں طرف ٹینک سازی بھی انجام کو پہنچ گئی۔ امریکی افواج نے عراق اور افغان جنگوں میں استعمال کے لیے اگرچہ ٹینک تیار کیے تھے لیکن اِن جنگوں میں اُن کا زیادہ تر انحصار فضائی قوت پر ہی رہا۔

سرد جنگ کے خاتمے پر جب زمینی مداخلت یا جارحیت کا خطرہ ختم ہو گیا تو یورپ میں ٹینک سازی بھی ختم ہو گئی لیکن یوکرین میں روسی مداخلت نے ان خدشات وخطرات کو پھر سے زندہ کر دیا ہے۔

جنوبی ایشیا میں سٹریٹجک یا جنگی حکمت عملی کی حقیقت بالکل برعکس ہے، جہاں پاکستان اور انڈیا کی زمینی افواج اب بھی ایک دوسرے کے خلاف زمینی مداخلت کو ایک بڑا خطرہ تصور کرتی ہیں۔

گذشتہ 30 سال کے دوران جنوبی ایشیا کے تناظر میں امریکی سٹریٹجک انسٹیٹیوٹ کی بہت ساری جنگی مشقوں (وار گیمز) کا نچوڑ یہ تھا کہ انڈین فوج اپنے آرمرڈ دستوں کی مدد سے پاکستان کے مرکزی یا اندرونی حصے تک مداخلت کر سکتی ہے، جسے روکا نہیں جا سکتا۔

الخالد ٹینک

جوہری صلاحیت رکھنے والے پاکستان کا ’نصر میزائل‘ انڈیا کی طرف اس نوعیت کی آرمرڈ جارحیت کے خلاف تیر بہدف جوابی ہتھیار ہے۔ جنگ چھڑنے اور انڈیا کی طرف سے اس نوعیت کی کارروائی کے جواب میں پاکستان اپنے اسلحہ خانے میں موجود یہ تیر چلا سکتا ہے، لہذا پاکستان اور انڈیا کے تناظر میں ٹینک اب بھی بہت کارگر ہتھیار ہیں۔

پاکستانی فوج سنہ 2000 سے شروع ہونے والے اس ٹینک منصوبے میں اب تک بھاری سرمایہ کاری کر رہی ہے جس کے ناک نقشے سے لے کر ٹینک سازی تک کے بڑے منصوبے کی ذمہ داریاں پاکستان ڈیفنس انڈسٹری کے سپرد ہیں۔

میدان جنگ کے اس بنیادی ہتھیار الخالد ٹینک کی جدید قسم کو جوہری، حیاتیاتی (بائیولوجیکل) اور کیمیائی (کیمیکل) ماحول میں استعمال کیا جا سکے گا۔

لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم کہتے ہیں کہ ’جوہری طور پر محفوظ ٹینک کا مطلب یہ ہے کہ اگر جوہری حملہ ہوتا ہے تو ایسے میں ٹینک کے اندر موجود عملہ محفوظ رہے گا۔ اسے چین اور یوکرین کی فنی معاونت سے تیار کیا گیا ہے، اسی لیے عمومی طور پر پاکستانی فوج کے ماہرین اسے ’ٹینکوں کا بادشاہ‘ قرار دیتے ہیں۔‘

پاکستانی آرمرڈ کور کی فنی تاریخ

دوسری عالمی جنگ کے زمانے کے ٹینکوں کے استعمال کے ساتھ پاکستانی آرمرڈ کور قیام پاکستان سے پہلے ہی وجود میں آ چکی تھی۔

ایم 47 اور ایم 48 امریکی ساختہ ٹینکوں کے حصول کے لیے پاکستان نے سنہ 1954 اور 1962 میں واشنگٹن سے معاہدہ کیا۔ سنہ 1965 کی جنگ کے دوران امریکہ نے پاکستان پر پابندی لگا دی جس کے بعد پاکستان آرمی نے ہتھیاروں کے حصول کے لیے اپنے ذرائع میں اضافہ کرنا شروع کر دیا۔

پہلی مرتبہ ہمیں اپنے ہتھیاروں کو برقرار رکھنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جس کے نتیجے میں پاکستان نے ’ٹی‘ سیریز کے ٹینک بڑی مقدار میں حاصل کیے۔ ’ٹی 59‘ ٹینکس بنیادی طور پر چین سے حاصل کیے گئے جنھیں پاکستان آرمی کا حصہ بنایا گیا۔

جولائی 1971 میں ایک معاہدے پر دستخط ہوئے اور سنہ 1979 میں ٹیکسلا میں بھاری اسلحے کی فیکٹری قائم ہو چکی تھی، جس نے ’ٹی 59‘ ٹینکس بنانے شروع کر دیے تھے۔ 1992 میں چین ہی کی مدد سے ٹینکس اور بندوق بنانے کی فیکٹریاں بھی قائم ہو گئیں۔

ایک سینئیر فوجی اہلکار نے بتایا کہ ’سنہ 2007 میں یوکرین کے انجینئیرز کی مدد سے پاکستان ’ایڈوانس ریسرچ ڈویلپمنٹ اینڈ انفارمشین سینٹر‘ اور ’ایڈوانس سسٹم ری بلڈ فیکٹری‘ قائم کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا، جن کا مقصد ہتھیاروں کے شعبے میں جدت اور ترقی لانے کے لیے تحقیق کے عمل کو آگے بڑھانا تھا۔‘

ایک اور سینیئر فوجی افسر کے مطابق چین کی مدد سے پاکستانی ڈیفینس انڈسٹری نے ’ٹی 59‘ ٹینکس کی دوسری نسل سے تیسری نسل کے الخالد ٹینکس اور الخالد اول کی تیاری کے مراحل بتدریج مکمل کیے ہیں۔

سینیئر فوجی افسر نے بتایا کہ ’اس طویل سفر میں نہ صرف ’ٹی 59‘ اور ’ٹی 69‘ تیار ہوئے بلکہ دوسری نسل کے ٹینک ’ٹی 85‘ بھی تیار ہوئے جنھیں چین سے لے کر پاکستانی فوج کے دستوں میں شامل کیا گیا تھا۔‘

چین کے اشتراک اور باہمی طور پر ٹیکنالوجی کے استعمال سے یہ ’مشترکہ ماڈل‘ وجود میں آیا تھا۔

ایک افسر نے بتایا کہ ’ہم نے مل کر اس کا ڈیزائن بنایا، اسے تیار کیا اور پھر ٹینک سازی کا مرحلہ طے کیا، اس میں کلیدی ٹیکنالوجیز کے باہمی حصول کے ذریعے خود انحصاری کی منزل حاصل کی گئی۔ مثال کے طور پر تمام بندوقیں ہیوی انڈسٹریز ٹیکسلا میں مقامی طور پر ڈیزائن اور تیار ہو رہی ہیں۔‘

چینی ٹیکنالوجی کی مدد سے اب پاکستان جدید ترین الخالد ٹینک کی قسم تیار کر رہا ہے۔

الخالد ٹینک میں کیا خصوصیات ہیں؟

الخالد ٹینک نسبتاً ہلکا 46 ٹن وزن کا ٹینک ہے، اس کے مقابلے میں جرمن ساختہ ’لیپرڈ ٹو‘ اور امریکی ساختہ ’ایم ون ابرامز‘ ٹینکوں کا وزن 60 ٹن ہے۔ 1200 ہارس پاور اور 70 کلومیٹر فی گھنٹہ رفتار کی حد تک دوڑنے کی صلاحیت کے حامل یوکرین کے ’6 ٹی ڈی 2‘ ٹیکنس میں استعمال ہونے والے ٹھنڈے مائع ڈیزل انجن کے ساتھ مقامی طور پر پہلا ٹینک تیار کیا۔

الخالد ٹینک

پاکستان آرمی کے زیر انتظام ’الہلال‘ میگزین میں شائع ہونے والے ایک مضمون کے مطابق ’1990 کے اوائل میں پاکستان نے خود ٹینک ڈیزائن کیا اور اسے تیار کیا جو عصر حاضر میں استعمال ہونے والے ٹینکوں کے ہم پلہ تھا۔‘

’ٹینک کی تیاری کے پروگرام کو ’ایم بی ٹی 2000 پروگرام‘ کا نام دیا گیا۔ ہمارے عظیم اور آزمودہ کار دوست چین کے اشتراک عمل سے اس پروگرام پر عمل درآمد کیا گیا۔ متعدد اجزا کے ملاپ کی کوشش کی گئی اور آخر کار ایک بہترین صلاحیت کے ڈیزائن کو چنا گیا جس میں جدید ترین خصوصیات کو شامل کر کے الخالد ٹینک کا نام دیا گیا اور اس کی پروڈکشن شروع ہو گئی۔‘

’سنہ 2000 میں الخالد ٹینک کی پروڈکشن شروع ہوئی جو ایک دہائی سے جاری ہے۔ اس عرصے کے دوران دفاعی پیداوار میں متعدد جدید ٹیکنالوجیز کو بھی متعارف کرایا گیا۔ ہدف پر ٹھیک ٹھیک نشانہ لگانا، انگیجمنٹ، آتشیں اسلحہ پر قابو رکھنے کے جدید نظام کی تیاری، ہدف کو دیکھنے اور شست پر لانے کی جدید ترکیب، جوہری، حیاتیاتی اورکیمیائی (این بی سی) حملے کا بروقت پتا چلانے، اس دوران محفوظ رہنے کی صلاحیت حاصل کرنا اس پشرفت کی چند مثالیں ہیں۔‘

’الخالد ٹینک کو جدید بنانے کی تیاری جدید ٹیکنالوجیز کو اس میں شامل کرنے کے منصوبے کا حصہ تھی۔ جدید ترین ٹیکنالوجیز کے حامل اس ٹینک کو ’الخالد اول‘ کا نام دیا گیا ہے۔ پرانے ماڈل کے اس ٹینک میں جدید ترین ٹیکنالوجیز کو نصب کرنے کے بعد اسے یہ نام دیا گیا۔ اپنی صلاحیت کے اعتبار سے یہ ٹینک دشمن کو فوری انگیج کرنے، حملہ آور سے پہلے اُسے جا لینے اور ٹھیک ٹھیک نشانہ بنانے کے قابل ہے۔ الخالد اول پاکستان آرمرڈ کے دستے میں ٹینکوں کی تیسری نسل کا اضافہ ہے۔‘

الخالد ٹینک
الخالد اول

جدید ترین الخالد اول چین اور یوکرین جیسے دوست ممالک کے اشتراک عمل کا شاہکار ہے جس کی تیاری کا مقصد ’ہائیر سٹریٹجک اور ٹیکٹیکل موبیلیٹی‘ ہے۔ آسان الفاظ میں یہ ایک ایسا ٹینک ہے جو میدان جنگ میں بڑی تیزی سے نہ صرف حرکت کر سکتا ہے بلکہ جوہری ہتھیاروں کے استعمال میں بھی نہایت کارگر اور مؤثر ہے۔

اس لحاظ سے یہ ایک خاص صف کا مالک ہے جسے نہ صرف جوہری حملے کے ماحول میں بروئے کار لا سکتے ہیں بلکہ شہروں میں لڑائی کی کسی صورتحال میں بھی یہ اتنا ہی آزمودہ ہے۔ دیگر نوعیت کے حملہ آور یا ٹینک شکن ہتھیاروں کے خلاف بھی اسے نہایت سخت جان یا مؤثر پایا گیا۔

طویل یا سخت نوعیت کی فوجی کارروائیوں کے لیے بھی اس کا کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم نہایت مؤثر اور خود کار ہے۔ الخالد اول وزن میں کم ہونے کے باوجود سب سے زیادہ مقدار میں ہتھیاروں اور جدید نظاموں سے لیس ٹینک کے طور پر مشہور ہے۔ اس ٹینک کا نام ساتویں صدی کے مسلم کمانڈر خالد بن ولید کے نام پر رکھا گیا ہے۔

پاکستان آرمی بنیادی طور پر اسی ٹینک پر انحصار کرتی ہے۔ ’ایم بی ٹی 2000‘ کے نام سے بھی مشہور الخالد ٹینک کو پاکستان اور چین نے 1990 میں مل کر تیار کیا تھا جبکہ سنہ 2001 میں اسے پاکستانی فوج میں باضابطہ شامل کیا گیا۔ ایک اندازے کے مطابق 600 الخالد ٹینک اس وقت پاکستان آرمی کے زیر استعمال ہیں۔

چینی ساختہ ’وی ٹی 4‘ بنیادی جنگی ٹینک کی پاکستان آرمی میں شمولیت الخالد ٹینک کی ٹیکنالوجی کو مزید بڑھائے گی۔

ہیوی انڈسٹریز ٹیکسلا (ایچ آئی ٹی) کے چیئرمین میجر جنرل سید عامر رضا نے مقامی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے تجویز کیا کہ آنے والے الخالد ٹینک کو چینی ’وی ٹی 4‘ ٹیکنالوجی کی بنیاد پر تیار کیا جا سکتا ہے۔ الخالد دوم اور ’وی ٹی 4‘ پاکستان آرمی کے آئندہ نسل کے زیرعمل ’ایم بی ٹی‘ (بنیادی جنگی ٹینکوں) پروگرام کا حصہ ہیں۔

پاکستان نے 176 ’وی ٹی 4‘ ٹینکوں کا آرڈر دیا تھا جن کی لاگت 859 ملین امریکی ڈالر ہے۔ پاکستان آرمی نے گذشتہ سال اکتوبر میں نشانہ بازی کے عملی مظاہرے کے بعد ’وی ٹی 4‘ ٹینکوں کی فوج میں شامل کرنے کا اعلان کیا تھا۔

پاکستان آرمی کے ایک افسر نے بتایا کہ ’الخالد دوم الخالد سیریز میں ایک نمایاں پیشرفت اور ترقی ہے جس پر پاکستان آرمی بنیادی جنگی ٹینک کے طور پر انحصار کرتی ہے۔‘

نئے ’ایم بی ٹی‘ کے بارے میں آرمی اور ہیوی انڈسٹریز ٹیکسلا نے تاحال کچھ نہیں بتایا تاہم آج کے دن تک اُنھوں نے صرف یہی ظاہر کیا ہے کہ الخالد دوم میں 1500 ہارس پاور کا ڈیزل انجن استعمال ہو سکتا ہے اور اس میں اور بھی زیادہ بہتر الیکڑانکس ہوں گی۔ ہیوی انڈسٹریز ٹیکسلا آرمی کے لیے (اور بھی بہتر) 110 ’ایم بی ٹیز‘ کی تیاری پر کام کر رہی ہے۔۔۔ یہ مرحلہ الخالد دوم کی پروڈکشن کے آغاز کا باعث بن سکتا ہے۔

مئی 2021 میں پاکستان نے چین کے نورنکو گروپ کی طرف سے اضافی ’وی ٹی 4‘ بنیادی جنگی ٹینک اور الخالد کے مزید بہتر اجزا اور حصے حاصل کیے۔

بائیس ستمبر 2020 کو پاکستان آرمی نے جہلم میں جنگی مشقوں کے علاقے میں نئے حاصل کردہ ’وی ٹی 4‘ ٹینک کو مظاہرہ دیکھا اور اسے سامنے لائی۔

پاکستان کے چیف آف آرمی سٹاف نے عملی مظاہرے کی یہ مشق دیکھی اور ’وی ٹی 4‘ کے اس عملی مظاہرے پر اطمینان کا اظہار کیا۔

پاکستانی فوج کے محکمہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے بیان میں کہا گیا کہ ’وی ٹی 4‘ ٹینک کو حملہ آور دستوں میں جنگ میں پہل کرنے والے اثاثے کے طور پراستعمال کیا جائے گا۔

آئی ایس پی آر نے یہ بھی کہا کہ ’وی ٹی 4‘ کا ’دنیا کے کسی بھی محفوظ ترین بکتر بند، تیزی سے حرکت کرنے والے، درست نشانہ لگانے اور بہترین جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ ٹینک سے موازنہ کیا جا سکتا ہے۔‘

’وی ٹی 4‘ ٹینک جدید الخالد (الخالد اول) کے ساتھ پاکستان فوج کی آمرڈ کور میں شامل ہو جائے گا۔ جدید الخالد کو اگست 2020 میں فوج میں شامل کیا گیا تھا۔

بشکریہ بی بی سی