پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی اتحادی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ پارلیمان کے ذریعے عدالتی اصلاحات لے کر آئے گی۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ حکومت بنیادی طور پر عدلیہ اور دوسرے اداروں کو کنٹرول کرنا چاہتی ہے۔
واضح رہے کہ عدلیہ میں اصلاحات کے حوالے سے سب سے پہلے پیپلز پارٹی کے رہنما فرحت اللہ بابر نے ایک ٹویٹ کی تھی۔ جس کو بعد پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ٹویٹ کیا تھا۔
پرویز الٰہی کی درخواست پر سپریم کورٹ کی طرف سے آنے والے فیصلے کے بعد حکومت کی طرف سے سپریم کورٹ پر ایک تنقید کی یلغار کر دی گئی ہے اور حکومت کے تقریباﹰ تمام وزراء عدالت عظمیٰ کو ہدف تنقید بنا رہے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ وہ ایسی کسی بھی کوشش کی بھرپور مخالفت کرے گی۔
'حکومت کی نیت ٹھیک نہیں‘
پاکستان تحریک انصاف کی ایک رہنما مسرت جمشید چیمہ کا کہنا ہے کہ یہ سارے اقدامات حکومتی بددیانتی پر مبنی ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پاکستان کے عدالتی نظام میں اصلاحات ہونی چاہییں، کیونکہ یہاں پر لاکھوں کی تعداد میں مقدمات زیر التوا ہیں۔
اس کے علاوہ وہ عدالتی کارروائی کا کوئی وقت نہیں ہوتا لہٰذا اصلاحات ہونی چاہییں لیکن اصلاحات کا یہ طریقہ نہیں ہونا چاہیے۔ آپ کوئی کیس ہار گئے ہیں یا آپ کو کوئی چیز پسند نہیں ہے تو صرف ان کے اختیارات کو کم کرنے کے لیے آپ انتظامی اقدامات کریں اور پھر ان کے اختیارات کو استعمال کریں۔
‘‘ مسرت چیمہ کا مزید کہنا تھا، ''حقیقی اصلاحات لانے کے لیے ضروری ہے کہ پولیس ڈیپارٹمنٹ کی بھی اصلاح کی جائے اور عدالتوں میں اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ مقدمات وقت پر ختم ہوں۔‘‘
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی اتحادی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ پارلیمان کے ذریعے عدالتی اصلاحات لے کر آئے گی۔
’مقدمات میں تاخیر عدلیہ کی وجہ سے نہیں ہے‘
سپریم کورٹ کے سابق جسٹس وجیہہ الدین احمد بھی مسرت جمشید چیمہ کی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ حکومت کی نیت ٹھیک نہیں لگ رہی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یہ حکومت تمام اداروں کو کنٹرول کرنا چاہتی ہے اسی لیے اب وہ عدالتی اصلاحات کے نام پر اعلٰی عدلیہ کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
موجودہ حکومت کی یہ بھی کوشش ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح فوج کو بھی کنٹرول کرے لیکن وہ اصلاحات نہیں لا سکیں گے۔ کیونکہ اصلاحات لانے کے لیے آپ کو آئین میں ترمیم کرنی پڑے گی جس کے لیے دو تہائی اکثریت چاہیے اور موجودہ حکومت کے پاس دو تہائی اکثریت نہیں ہے، تو مجھے ایسا لگتا ہے کہ یہ صرف پریشر ڈالنے کے طریقے ہیں۔
‘‘ جسٹس (ر) وجیہہ الدین احمد کا مزید کہنا ہے کہ یہ تاثر غلط ہے کہ عدالت میں لاکھوں مقدمات زیر التوا ہیں: ''پہلی بات تو میں یہ واضح کرنا چاہوں گا کہ زیادہ تر زیر التوا مقدمات اعلیٰ عدالتوں میں نہیں ہیں بلکہ وہ نچلی عدالتوں میں ہیں۔ جس کی بنیادی وجہ مجسٹریٹ کورٹ یا ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں اسٹاف کی کمی ہے۔
اس کے علاوہ بہت سارے مقدمات پولیس کی نا اہلی کی وجہ سے زیر التوا ہوتے ہیں جو چالان مکمل طور پر جمع نہیں کراتی، اس میں اس کی بددیانتی شامل ہوتی ہے۔ شواہد کو صحیح طریقے سے اکٹھا نہیں کیا جاتا ہے۔
تو ان زیرالتوا مقدمات کو نمٹانے کے لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ عدالتوں میں اسٹاف کی کمی کو فوری طور پر دور کیا جائے۔ مزید ججز اور عدالتی اسٹاف کو بھرتی کیا جائے۔ اس کے علاوہ پولیس میں ایسے لوگوں کو بھرتی کیا جائے جو ایماندار بھی ہوں اور ان میں مطلوبہ صلاحیت بھی ہو۔‘‘
جسٹس (ر) وجیہہ الدین کی رائے ہے کہ اگر اعلٰی عدلیہ میں مقدمات زیر التوا ہیں تو اس کی ایک وجہ ہائی پروفائل کیسز ہیں کیونکہ عدالتوں کو ہائی پروفائل کیسز کی سماعت کرنا پڑتی ہے''یہاں پر بھی ان کے وکلاء یا متاثرین زیادہ سے زیادہ وقت لینا چاہتے ہیں۔
ان مقدمات کی ایک مثال یہ ہے کہ کل جو سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا اس میں حکومت کی طرف سے کوشش کی جارہی تھی کہ اس کو زیادہ سے زیادہ زیر التوا رکھا جائے تو اگر عدالت میں کیس زیر التوا ہیں تو اس کی ایک بڑی وجہ فریقین بھی ہیں جو مقدمے کو طول دینے کی کوشش کرتے ہیں اور زیادہ وقت لگانے کی کوشش کرتے ہیں۔
’اصلاحات ضروری ہیں‘
جوڈیشل کونسل کے رکن راہب بلیدی کا کہنا ہے، ''حکومت کی نیت پر شک نہیں کرنا چاہیے اور عدالتی اصلاحات ہونی چاہییں۔‘‘ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''چیف جسٹس کے بینچ بنانے کے اختیارات کو ختم کیا جانا چاہیے۔
سینیئر ججز پر مشتمل بینچ بننے چاہییں اور یہ اختیار صرف چیف جسٹس کو نہیں ہونا چاہیے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ''ججز کی مراعات کو بھی کم کیا جانا چاہیے اور ان کے ریٹائرمنٹ کی عمر بھی دوسرے سرکاری ملازمین کی طرح ہی ہونی چاہیے اور ججز کو اس بات کا پابند کیا جانا چاہیے کہ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد کوئی دوسرا سرکاری عہدہ نہ لیں۔
ججوں کی تقرری کے حوالے سے جو چار ججوں کی تعداد ہے اس کو بھی کم کیا جانا چاہیے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ یہ عدالتی اصلاحات ضروری ہیں کیونکہ عدالتوں اور ججوں پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔
0 Comments
Post a Comment