آئین پاکستان کے تحت صوبے میں گورنر راج کیسے لگایا جاسکتا ہے؟ یہ کن شقوں کے تحت لگ سکتا ہے؟

گورنر راج
آئین کے آرٹیکل 232 کی شق نمبر 1 کے تحت گورنر راج لگایا جاسکتا ہے، اٹھارہویں ترمیم نے صوبے میں گورنر راج کے صدر مملکت کے اختیارات کو محدود کردیا ہے۔

گورنر راج کب، کیوں اور کیسے لگایا جاسکتا ہے؟

آئینی طور پر ملکی سلامتی یا کسی صوبے کو جنگ کا خطرہ ہو تو گورنر راج لگایا جاسکتا ہے، بیرونی جارحیت یا صوبائی حکومت کے اختیارات سے باہر گڑبڑ ہو تو گورنر راج لگایا جاسکتا ہے۔

صدر مملکت ایسی صورتحال میں ایمرجنسی کا اعلان جاری کرسکتا ہے، لیکن اس کے لیے بھی صدر کو متعلقہ صوبائی اسمبلی سے ایک قرار داد کی ضرورت ہوگی۔

صدر مملکت ذاتی اقدام کرتا ہے تو ایمرجنسی کا اعلان 10 دن میں پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں پیش کرنا ہوگا۔آرٹیکل 233 ایمرجنسی کے دوران بنیادی حقوق وغیرہ معطل کرنے کا اختیار دیتا ہے، ایمرجنسی کا اعلان نافذ العمل ہو تو صدر حکم کے ذریعے اعلان کرسکتا ہے۔

آئین کے آرٹیکل 32، 33 اور 34 میں گورنر راج کے حوالے سے وضاحت کی گئی ہے۔ گورنر راج کے دوران بنیادی انسانی حقوق بھی معطل کر دیے جاتے ہیں اور صوبائی اسمبلی کے اختیارات قومی اسمبلی اور سینیٹ کو تفویض کردیے جاتے ہیں۔

کسی صوبے میں ایمرجنسی کی صورت میں گورنر راج نافذ کیا جاسکتا ہے مگر اٹھارہویں ترمیم کے تحت گورنر راج کے نفاذ کو صوبائی اسمبلی کی منظوری سے مشروط کردیا گیا ہے جس کے بعد وفاقی حکومت کے لیے آسان نہیں کہ کسی صوبے میں مخالف جماعت کی حکومت کا اثر ختم کرنے کے لیے گورنر راج نافذ کرے۔

ماضی میں اس بات کی مثالیں موجود ہیں کہ پاکستان کے کئی صوبوں میں گورنر راج نافذ کیے گئے۔ خود وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید کے مطابق صوبہ سندھ میں آج تک تین گورنر راج لگ چکے ہیں۔

حال ہی میں 25 فروری 2009 کو اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی سفارش پر آئین کے آرٹیکل 237 کے تحت صدر آصف علی زرداری نے شہباز شریف کی حکومت کے خلاف دو ماہ کے لیے گورنر راج نافذ کیا تھا۔

اس کے بعد مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی میں کشیدگی پیدا ہوگئی تھی تاہم مسلم لیگ ن کے لانگ مارچ اور ججز کی بحالی کے بعد گورنر راج ختم کردیا گیا تھا۔

اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی کا موقف تھا کہ سپریم کورٹ کی طرف سے وزیراعلٰی کے عہدے سے شہباز شریف کی نااہلی کے بعد پیدا ہونے والے بحران سے بچنے کے لیے صدر نے گورنر راج نافذ کرکے اختیارات گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو سونپے تھے۔

اس کے بعد جنوری 2013 میں بھی کوئٹہ میں خودکش اور کار بم دھماکے میں 90 سے زائد افراد کی ہلاکت کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت کے وزیراعظم راجا پرویز اشرف نے صوبے میں گورنر راج نافذ کردیا تھا۔

 چوہدری الطاف حسین نے بھی بطور گورنر پنجاب 1993 کی سیاسی کشیدگی کے دوران بہت اہم کردار ادا کیا تھا اور اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے صوبے میں کنٹرول حاصل کرنے کی کوششوں کو صدر غلام اسحق خان کے ساتھ مل کر انتظامی اقدامات کے ذریعے ناکام بنایاگیا تھا۔

 انہیں بے نظیر بھٹو نے 1994 میں اپنی حکومت آنے کے بعد دوبارہ بھی گورنر بنایا تھا۔

حامد میر کے مطابق 70 کی دہائی میں جب ذوالفقار علی بھٹو وزیراعظم تھے تو پنجاب میں پولیس نے ہڑتال کردی تھی جسے ناکام بنانے کے لیےگورنر مصطفی کھر کو خصوصی اختیارات دیے گئے تھے۔

بطور گورنر ان کا دور سب سے زیادہ مشہور ہوا تھاگورنر مصطفیٰ کھر نے پولیس کی ہڑتال ناکام بنانے کے لیے پیپلز پارٹی کے کارکنوں کے ذریعے تھانوں اور ٹریفک کا انتظام چلانا شروع کردیا تھا اور بعد میں فیڈرل سکیورٹی فورس (ایف ایس ایف) بھی تشکیل دی گئی جس کے ذریعے وفاق صوبوں میں براہ راست انتظامی امور میں مداخلت کرسکتا تھا۔  

 پنجاب میں پیپلز پارٹی کی جانب سے مسلم لیگ ن کی حکومت کے خلاف گورنر راج کے نفاذ کے بعد آئین میں ترمیم کی گئی تھی اور آرٹیکل 232 کے تحت اس امر کو یقینی بنایا گیا تھا کہ صوبائی حکومت کی مرضی کے بغیر گورنر راج نافد نہ ہو۔