ڈسٹرکٹ ملیر میں غیرقانونی سدرہ سٹی پراجیکٹ کاتعمیراتی کام تاحال جاری

کراچی (تحقیقاتی رپورٹ ازایڈووکیٹ شاہ زما ن جونیجو)ڈسٹرکٹ ملیر کا نام ہو اور لینڈ مافیا کا نام نہ آئے ایسا نہیں ہوسکتا ،ڈسٹرکٹ ملیر میں روینیو عملداروں کی حرام خوری اور لینڈ مافیا کی مکمل طور پر سرپرستی کی وجہ سے لینڈ مافیا کو آج تک قانونی گرفت میں نہ لایا جاسکا ہے 

ڈسٹرکٹ ملیر میں نیشنل ہائی پر ناکلاس309واقع دیہی جوریجی پر غیرقانونی سدرہ سٹی پروجیکٹ کوسال 2015میں  لینڈ مافیا کے سرغنہ چودھری اکرم آرائیں ولدنورمحمدنے متعارف کروا کر تیزی سے کام شروع کروا دیا 

سدرہ سٹی پروجیکٹ کی اراضی واقع ناکلاس 309مین نیشنل ہائی وے 30سالہ لیز پرپولٹری فارم کے لیے محمد خادم صدیقی نے سندھ گورنمنٹ سے حاصل کی تھی 

اسکے بعد مذکورہ اراضی کو سال1998میں محمد خادم صدیقی نے رفیق علی ولد سید شریف علی کو فروخت کی اور ناکلاس نمبر309میں واقع 6ایکڑ اراضی کا مالک رفیق علی ولد سید شریف علی بن گیا

پھر مورخہ 06-04-2000میں ایک پاور آف اٹارنی کے ذریعے رفیق علی ولد سید شریف علی نے مذکورہ اراضی کا نسیم گل نامی شخص کو غیرمنقولہ جائیداد واقع ناکلاس 309مین نیشنل ہائی وے کا مختار بنادیا  

واضح رہے کہ مالکان سے مذکورہ زمین حاصل کرنے و قبضہ کرنے کے لیے مسلسل 15سال جدوجہد کی گئی اور مختلف غیر قانونی حربے استعمال کیے جاتے رہے اور ا س پوری گیم میں خاص طور پر لینڈ مافیاکی روینیو ملیر کے حرام خورعملداروں اور ایم ڈی اے ملیر کے کرپٹ افسران نے مکمل طور پر دلالی کا حق ادا کیا 

ڈپٹی کمشنر ملیر کی جانب سے مورخہ23-09-2002 کونسیم گل کو نوٹس بھجوایاگیاکہ مذکورہ الاٹ کی گئی اراضی واقع ناکلاس 309 مین نیشنل ہائی وے 30سالہ لیز پرپولٹری فارم کے مقصد کے لیے جائیداد کو کینسل کردیا ہے 

ڈپٹی کمشنر ملیر کی جانب سے نوٹس کے بعد مذکورہ اراضی کو کینسل کردیا گیا اور ڈپٹی کمشنر ملیر صاحب نے لیز کینسل کرنے کی وجہ یہ بتائی کی مذکورہ اراضی پرآئل ٹینکرز کے لیے گورنمنٹ ایک یارڈ بناناچاہتی ہے 

ڈپٹی کمشنر ملیر کی جانب سے نوٹس موصول ہونے اور 30سالہ لیز زمین کینسل ہونے کے بعد نسیم گل نے اپنی لیز زمین کی کینسلیشن کو ہائی کورٹ آف سندھ کراچی میں چیلنج کردیا اورہائی کورٹ آف سندھ کراچی میں ایک سول کیس نمبر13/2001درج کیا

جس پر ہائی کورٹ آف سندھ کراچی کے معزز جج مسٹر جسٹس انور منصور خان نے مورخہ 23اگست سال 2001 کو ڈپٹی کمشنر ملیر کی جانب سے کینسلیشن کاآرڈر منسوخ کرتے ہوئے مذکورہ  الاٹ کی گئی اراضی واقع ناکلاس 309 مین نیشنل ہائی وے 30سالہ لیز کو بحال کرنے کے احکامات جاری کیے اور ہائی کورٹ آف سندھ کراچی نے لینڈ یوٹیلائزیشن ڈیپارٹمنٹ ،ڈپٹی کمشنر ملیر اور مختیار کار بن قاسم کوحکم دیا کہ 15028روپے مدعی مقدمہ نسیم گل کو کیس کے اخراجات کی مد میں ادا کریں


 

اسکے بعد مورخہ 19-09-2005کو رفیق علی ولد سید شریف علی نے اپنا پاور آف اٹارنی ڈیڈ نسیم گل سے واپس لے لی اور ایک دفعہ پھر مذکورہ اراضی رفیق علی ولد سید شریف علی کے پاس چلی گئی پھر لینڈ گریبرجعلی سدرہ سٹی کے مالک چودھری اکرم آرائیں ولد نور محمد نے اسی زمین پر قبضہ کرنے کی کوشش کی جس پر مالکان نے قانونی کارروائی عمل میں لاتے ہوئے مورخہ27-10-2000کو تھانہ بن قاسم پر ایف آئی آر نمبر71/2000درج کرائی 

پھر ایک عرصہ خاموشی کے بعد ایک دفعہ پھر چودھری اکرم آرائیں ولد نور محمدنے ایک جھوٹی سیل ڈیڈکے ذریعے مورخہ 23-12-2014کورجسٹرڈ کروا ئی اور ڈپٹی کمشنر ملیر،اسسٹنٹ کمشنر بن قاسم اورمختیار کار بنقاسم سے مل کر مذکورہ اراضی کا مالک خیر محمد ولد حاجی محمد کوظاہر کرکے خود مالک بن گیا اور مذکورہ اراضی  واقع ناکلاس 309 مین نیشنل ہائی وے 30سالہ لیز پرمکمل طور پر قبضہ کرلیا 

اسکے بعد سب رجسٹرار بن قاسم ملیرایک لیٹر نمبر303بتاریخ 15/12/2014کو اسسٹنٹ کمشنر بن قاسم ملیر کو جاری کرتا ہے جوکہ مذکورہ اراضی واقع ناکلاس 309 مین نیشنل ہائی وے 30سالہ لیز کے فارمIIاور فارم VIIکے اصلی یا پھر جعلی ہونے سے متعلق ہے اور اسی طرح کا ایک اور لیٹر نمبر815/2014مختیار کار بن قاسم ملیر مورخہ 18/12/2014کو اسسٹنٹ کمشنر بن قاسم ملیر کو جاری کرتا ہے اور سوال کرتا ہے کہ متعلقہ اراضی واقع ناکلاس 309 مین نیشنل ہائی وے 30سالہ لیز کے کاغذات کی تصدیق فرمائی جائے اسکے بعد اسسٹنٹ کمشنر ملیر بن قاسم نے اپنے لیٹر نمبر1158/2014بتاریخ 18/12/2014کے ذریعے سب رجسٹرار کو لکھتا ہے کہ فارمIIجریان نمبر21/29ناکلاس نمبر309اراضی 6ایکڑ کا لیٹر ڈپٹی کمشنر ملیر جاری کیا ہے اور متعلقہ اراضی کے کاغذات کی تصدیق بھی کردی  اور بتایا کہ 2014کھاتہ نمبربنام کاشف مرزا چغتائی ولد واجد مرزا چغتائی جسکا سب اٹارنی خیر محمد ولد حاجی محمد ہے مذکورہ اراضی واقع ناکلاس 309 مین نیشنل ہائی وے 30سالہ لیزکا کھاتا نمبر بتلایا ۔

اور پھر 2015میں ہی مختیار کار بن قاسم ،اسسٹنٹ کمشنر بن قاسم اور سروے سپرٹینڈنٹ نے دپٹی کمشنر ملیر کے حکم پر رفیق علی ولد سید شریف علی کی زمین کی ڈیمارکیشن کرکے لینڈ مافیاچودھری اکرم آرائیں و دیگر کو غیرقانونی طور پر قبضہ دلاتے ہوئے ایک نیا سروے نمبر439مشتمل چار ایکڑ ناکلاس نمبر309دیہی جوریجی دریافت کردیا اور پھر سدرہ سٹی کے نام سے جعلی پروجیکٹ عام عوام کو لوٹنے کے لیے شروع کردیا

 اور روینیو ملیر کی جانب سے یہ تمام دو نمبری کام اسوقت کیا جارہا تھا کہ جب سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے پابندی کے احکامات تھے 

اسکے بعد رفیق علی ولد سید شریف علی نے لینڈ مافیا کی اس ساری دو نمبری کے خلاف ایک سو ل سوٹ نمبر1656/2018معزز عدالت ہائی کورٹ آف سندھ کراچی میں داخل کیا جس پر مورخہ 17اکتوبر سال2018کو جعلی پروجیکٹ سدرہ سٹی پر اسٹے آرڈر بھی جاری کررکھا ہے لیکن اسکے باوجود بھی لینڈ مافیا چودھری اکرم آرائیں نے عوام کو لوٹنے کے لیے پلاٹنگ شروع کر رکھی ہے 

واضح رہے کہ اسی کیس میں سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی نے بھی عام عوام کی آگاہی کے لیے مورخہ 11/06/2018کو سدرہ سٹی پروجیکٹ سے متعلق فراد الرٹ جاری کررکھا ہے جوکہ ابھی بھی سندھ بلدنگ کنٹرول اتھارٹی کی آفیشل ویب سائیٹ پر موجود ہے

واضح رہے کہ رفیق علی ولد سید شریف علی کا انتقال ہوچکا ہے اور جس کی وجہ سے سندھ ہائی کورٹ کراچی میں درج کیس کی صحیح طریقے سے پیروی نہ ہوپائی ہے لیکن اب رفیق علی ولد سید شریف علی کے ورثاء نے ملیر کورٹ کے وکلاء سے اس معاملے میں رابطہ کیا ہے