کوویڈ :برطانیہ اور جرمنی کی سفری پابندیاں،جنوبی افریقہ سے ابھرنے والی نئی قسم اومیکورن پر سائنسدانوں کو شدید تشویش، 

جنوبی افریقہ سے ابھرنے والی نئی قسم اومیکورن پر سائنسدانوں کو شدید تشویش

کراچی (ویب ڈیسک)عالمی ادارہِ صحت ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کی منظرعام پر آنے والی نئی قسم انتہائی باعثِ تشویش ہے اور ابتدائی شواہد کے مطابق اس نئی قسم میں ری انفیکشن کا خطرہ دیگر اقسام سے زیادہ ہے،کورونا وائرس کی اس نئی قسم کو اومیکورن کا نام دیا گیا ہے اور اس کے پہلے کیسز جنوبی افریقہ میں دریافت کیے گئے تھے ،اس کے بعد متعدد ممالک بشمول برطانیہ، کینیڈا، اور امریکہ نے جنوبی افریقہ اور اس کے ارد گرد خطے کے ممالک پر سفری پابندیاں عائد کر دی ہیں،ادھر عالمی ادارہِ تجارت ڈبلیو ٹی او نے گذشتہ چار سال میں اپنا پہلا وزرا کے سطح کا اجلاس، پھر سے ملتوی کر دیا ہے۔ایک سو ساٹھممالک کے وزراء نے اس اجلاس میں سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں ملاقات کرنی تھی۔

بدھ کے روز جنوبی افریقہ میں اس اومیکورن قسم کی تصدیق کے بعد سے یہ قسم بوٹسوانا، بلجیئم، ہانگ کانگ، اور اسرائیل میں پائی گئی ہے،کورونا وائرس کی اس نئی قسم سامنے آنے کے بعد ایک بار پھر یہ خدشات بڑھ رہے ہیں کہ کووڈ 19 کے خلاف تمام کوششیں ناکافی ثابت ہو سکتی ہیں اور اگر اس نئی قسم سے متعلق سائنسدانوں کے خدشات درست ہیں تو دنیا بھر میں کورونا کی ایک نئی لہر آ سکتی ہے،کورونا کی اس نئی قسم کی دریافت کی اہم بات یہ ہے کہ اس وائرس کے جینیاتی ڈھانچے میں بہت زیادہ تبدیلیاں موجود ہیں۔ اسی وجہ سے ایک سائنسدان نے اس نئی قسم کے کورونا وائرس کو ہولناک قرار دیا تو ایک سائنسدان کا کہنا ہے کہ یہ اب تک سامنے آنے والے تمام وائرس سے خطرناک ہے۔

ایسے میں یہ سوالات جنم لے رہے ہیں کہ وائرس کی یہ نئی قسم کتنی تیز رفتار سے پھیل سکتی ہے اور اس میں کورونا کی ویکسین کے خلاف کتنی مدافعت موجود ہے۔ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کورونا کی اس نئی قسم کا توڑ کیا ہے؟

اس نئی قسم کے بارے میں تمام تر خدشات کے باوجود ان سوالوں کے سب جواب اب تک سائنسدانوں کے پاس بھی نہیںہیں اب تک اس نئی قسم کے درجنوں مصدقہ متاثرین سامنے آ چکے ہیںاور ان میں سے زیادہ تر جنوبی افریقہ کے صوبے گوٹنگ میں سامنے آئے لیکن چند متاثرین بیرون ملک بھی موجود ہیں جن میں یورپ، جنوبی افریقہ کے ہمسایہ ممالک اور اسرائیل شامل ہیں،افریقی ملک بوٹسوانا میں چار متاثرین سامنے آئے ہیں جبکہ ایک کیس ہانگ کانگ میں بھی دریافت ہوا ہے جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ مریض جنوبی افریقہ سے سفر کر رہا تھااسی وجہ سے اس خدشے کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ شاید یہ قسم اندازے سے زیادہ پھیل چکی ہے اور جنوبی افریقہ کے زیادہ تر صوبوں میں موجود ہو سکتی ہے۔

اس نئی قسم کے سامنے آنے کے بعد برطانیہ کی جانب سے چھ افریقی ممالک پر نئی سفری پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں۔ ان میں جنوبی افریقہ، نمیبیا، زمبابوے، بوٹسوانا، لیسوتھو اور اسواتینی شامل ہیںبرطانیہ کی ہیلتھ سکیورٹی ایجنسی سے منسلک جینی ہیرس کا کہنا ہے کہ وائرس کی یہ نئی قسم اب تک سامنے آنے والی تمام اقسام کے مقابلے میں زیادہ خطرناک لگتی ہے ان کے مطابق فوری طور پر نئی ہنگامی ریسرچ کے ذریعے یہ معلوم کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ وائرس کتنی تیزی سے پھیل سکتا ہے اور کتنا مہلک ہے۔ یہ بھی معلوم کرنے کی ضرورت ہے کہ کورونا کی ویکیسن کے خلاف اس کی مدافعت کتنی ہے۔

وزیرِ صحت ساجد جاوید کا کہنا ہے کہ سائنسدانوں کو وائرس کی نئی قسم پر گہری تشویش ہے۔ یہ زیادہ تیزی سے پھیل سکتا ہے اور ہماری موجودہ ویکسینز اس کے خلاف کم کارآمد ہو سکتی ہیںجرمنی، اٹلی، اسرائیل اور سنگاپور نے بھی جنوبی افریقی ممالک کے شہریوں پر سفری پابندیاں عائد کی ہیں اور انھیں ریڈ لسٹ میں ڈال دیا ہے جرمن وزیر صحت نے جنوبی افریقہ کو وہ علاقہ قرار دیا ہے جہاں وائرس کی نئی قسم ہو سکتی ہے، اور کہا ہے کہ یہاں سے آنے والے مسافروں کو ملک میں داخلے کی اجازت نہیں ہوگی،یورپی کمیشن کی صدر کے مطابق یورپی یونین نے جنوبی افریقی ممالک پر سفری پابندیوں کی تجویز دی ہے تاکہ یورپی ریاستوں کو وائرس کی نئی قسم سے بچایا جا سکے۔ جبکہ آسٹریلیا اس حوالے سے تحقیقات کر رہا ہے کہ آیا اس وقت افریقی ممالک پر سفری پابندیاں لگانا ضروری ہے۔

ادھر انڈیا نے بھی تمام ریاستوں کو الرٹ جاری کیا ہے کہ جنوبی افریقہ سے آنے والے مسافروں کی سکریننگ کو لازم بنایا جائے،دوسری جانب عالمی ادار صحت کے ماہرین جمعے کو جنوبی افریقہ کے حکام سے ملاقات کریں گے تاکہ ملک میں صورتحال کا جائزہ لے سکیں،اسرائیل کے مقامی ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ وائرس کی اس نئی قسم کے پہلے کیس کی تشخیص کر لی گئی ہے۔ اسرائیلی وزارت صحت کے مطابق یہ شخص جنوبی افریقی ملک ملاوی سے لوٹ رہا تھا۔۔۔اہم سوال یہ بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ جنوبی افریقہ میں جہاں یہ نئی قسم سامنے آئی ہے وہاں اب تک صرف 24 فیصد آبادی کو ہی ویکیسن لگائی جا سکی ہے تو ایسے میں یہ نیا وائرس یورپ، جہاں ویکیسن لگوانے والوں کی تعداد کافی زیادہ ہے، کو کتنا متاثر کر سکتا ہے واضح رہے کہ یہ نئی قسم ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب یورپ میں کورونا کی چوتھی لہر کے خطرے کے پیش نظر ایک بار پھر نئی پابندیوں پر غور ہو رہا ہے۔