یورپ میں منشیات کی سمگلنگ کا رجحان خطرناک حدتک بڑھ گیا، پورے یورپ کو منشیات بہت جلد اپنی لپیٹ میں لے لے گی

کراچی(ویب ڈیسک)یورپ میں منشیات کی سمگلنگ کا رجحان خطرناک حدتک بڑھ گیا، پورے یورپ کو منشیات بہت جلد اپنی لپیٹ میں لے لے گی ،سی سی ٹی وی کی ا سکرین پر ایک درجن کے قریب افراد کو فوجیوں کی طرح روٹرڈیم کی بندرگاہ پر دوڑتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے ان کی توجہ کا مرکز بندرگاہ پر موجود ایک شپنگ کنٹینر ہے جو کولمبیا سے نیدرلینڈز کے شہر روٹرڈیم پہنچ چکا ہے، کاغذوں کے مطابق اس کنٹینر کے ذریعے پھل لائے گئے ہیں لیکن ان نوجوانوں کو پھلوں میں کوئی دلچسپی نہیں ہے جو شاید اب تک کنٹینر سے نکالے بھی جا چکے ہیں،اس کنٹینر کے ریفریجریشن یونٹ میں چھپائی گئی چار ملین یورو مالیت کی80کلو گرام کوکین ان نوجوانوں کا اصل ہدف ہے شاید اسی لیے انہیں کوکین کلیکٹر کہا جاتا ہے کیوں کہ ان کا کام اس بندرگار پر غیر قانونی طور پرا سمگل ہونے والی کوکین کو چوری چھپے شپنگ کنٹینرز سے با حفاظت نکال کر باہر لے جانا ہے تاکہ یہ کوکین ایمسٹرڈیم، برلن اور لندن لے جائی جا سکے۔

کوکین کلیکٹر جتنی کوکین کنٹینرز سے نکالتے ہیں عام طور پر ان کو ہر ایک کلوگرام پر دو ہزار یورو ملتے ہیں

یورپ میں منشیات کی ا سمگلنگ کا اہم حصہ سمجھے جانے والے ان کوکین کلیکٹرز کی تعداد کا تناسب روٹرڈیم کی بندرگاہ پر کوکین کی ا سمگلنگ میں اضافے کے ساتھ ساتھ بڑھتا جا رہا ہے،بی بی سی کو موقع ملا کہ کوکین کی اسمگلنگ سے جڑے اس گروہ کی خطرناک سرگرمیوں کی ایک جھلک دیکھ سکے، سی سی ٹی وی کی اسکرین پر، ایک درجن کے قریب افراد کو فوجیوں کی طرح روٹرڈیم کی بندرگاہ پر دوڑتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے ،جیسے جیسے نیدرلینڈز میں درآمد کی جانے والی کوکین کا حجم بڑھ رہا ہے،ا سمگلرز کے استعمال کیے جانے والے طریقے بھی زیادہ نفیس ہوتے جا رہے ہیں،بعض اوقات وہ کوکین کو بندرگاہ سے باہر نہیں لے جاتے ہیں، اس کی بجائے ان کا کام منشیات کو کسی بندرگاہ کے ملازم کی مدد سے مختص کردہ دوسرے کنٹینر میں منتقل کرنا ہے، جسے بعد میں ٹرک کے ذریعے بندرگاہ سے باہر لے جایا جاتا ہے، بعض اوقات گینگ بندرگاہ کے اندر بیٹھ کر ہی منشیات کی ترسیل کا انتظار کرتے ہیں۔

بعض اوقات گینگ کنٹینر کے اندر بیٹھ کر ہی منشیات کی ترسیل کا انتظار کرتے ہیں

ستمبر کے اوائل میں ایک ایسے ہی ہوٹل کنٹینر میں موجود نو کوکین کلیکٹرز اس وقت مشکل میں آگئے جب کنٹینر کا دروازہ جیم ہو کر کھل نہیں سکا،روٹرڈیم پولیس کے سربراہ جین جینس بتاتے ہیں کہ 'اگر آپ پھل یا لکڑی سے بھرے کنٹینر میں ہوں تو یہ چیزیں بھی آکسیجن کا استعمال کرتی ہیں، جس کا مطلب ہے کہ اندر کے لوگوں کے لیے ہوا کم رہ جاتی ہے، عام طور پر کوکین اسمگلر اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ کنٹینر کو اندر سے کھولا جا سکے لیکن اس کیس میں کچھ ایسا ہوا کہ وہ باہر نہیں نکل سکے2014میں روٹرڈیم حکام نے بندرگاہ سے 5,000 کلوگرام سے زیادہ کوکین پکڑی تھی اور2020 میں یہ تعداد 41,000کلوگرام تھی۔

متعلقہ پولیس چیف جین جینس کے مطابق اس سال ان کا خیال ہے کہ وہ ساٹھ ہزار کلو گرام تک کوکین پکڑ لیں گے 'انکے مطابق ہم ہر سال ایک نیا ریکارڈ بناتے اور توڑتے ہیں، مجھے کسی قسم کا فخر نہیں، یہ اچھی بات ہے کہ ہم کوکین پکڑ لیتے ہیں لیکن ہر سال اس کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے،بندرگاہ میں پکڑی جانے والی منشیات غیر قانونی طور پر لائی جانے والی غیر قانونی کوکین کا صرف چھوٹا سا حصہ ہے۔