بھوک افلاس اور خراب معیشت کی وجہ سے افغانستان سے معاشی پناہ گزینوں کا انخلا ہو سکتا ہے: پاکستان

بھوک افلاس اور خراب معیشت کی وجہ سے افغانستان سے معاشی پناہ گزینوں کا انخلا ہو سکتا ہے: پاکستان

کراچی(ویب ڈیسک)پاکستان نے دنیا کو افغانستان کی اندرونی صورت حال سے متعلق غفلت نہ برتنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغان عوام نئے امتحان سے دوچار ہے اور انہیں فوری مدد کی ضرورت ہے،وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے ہفتے کو اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاس میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان سے متعلق غفلت جنگ زدہ ملک میں بحران کو جنم دے سکتی ہے، جس سے نہ صرف یہ خطہ بلکہ پورا یورپ متاثر ہو گا،بھوک افلاس اور خراب معیشت کی وجہ سے افغانستان سے معاشی پناہ گزینوں کا انخلا ہو سکتا ہے، اس لیے دنیا کو صحیح قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان بہت نازک صورت حال سے گزر رہا ہے اور کسی قسم کی غیر ذمہ داری جنگ زدہ ملک میں حالات کو مزید خرابی کی طرف لے جائے گی ،یاد رہے کہ اسلام آباد میں اسلامی تعاون تنظیم کی کونسل آف فارن منسٹرز کا غیر معمولی اجلاس منعقد ہو رہا ہے، جس میں افغانستان میں معاشی اور انسانی بحران پر گفتگو ہو گی ،اجلاس میں اسلامی ممالک کے وزرا خارجہ کے علاوہ، امریکہ، چین، روس، برطانیہ، فرانس، جرمنی، یورپی یونین، بین الاقوامی مالیاتی اور امدادی اداروں کے نمائندے شرکت کر رہے ہیں۔

شاہ محمود قریشی نے بتایا کہ کانفرنس میں شرکت کے لیے 437 ڈیلی گیٹس رجسٹریشن کروا چکے ہیں جبکہ آج اسلامی ممالک کے سینیئر حکام اتوار کو ہونے والے وزرا خارجہ کے اجلاس کا ایجنڈا طے کریں گے،پاکستانی وزیر خارجہ نے کہا کہ اسلام آباد ہمیشہ سے دنیا کو افغانستان کی صورت حال سے متعلق یاد دہانی کرواتا رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج دنیا میں سوچ بدل رہی ہے اور امریکہ اور یورپی یونین کے اندر سے آوازیں اٹھ رہی ہیںانہوں نے مزید کہا کہ کابل میں کام کرنے والے 39 امریکی سفارت کاروں کا افغانستان کی صورت حال سے متعلق امریکی وزیر خارجہ کو خط ثبوت ہے کہ پاکستان کے موقف کے حق میں نئی آوازیں اٹھ رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ امریکی سفارت کاروں نے اپنی حکومت کو افغانستان سے متعلق واشنگٹن کی پالیسی کا نئے سرے سے جائزہ لینے کا کہا ہے،شاہ محمود قریشی نے کہا کہ افغانستان کی 38 ملین آبادی کی زندگی بہتر بنانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنے ملک میں خوشحال زندگی گزار سکیںہم چاہتے ہیں کہ افغان پناہ گزین باعزت طریقے سے واپس اپنے ملک جائیں اور یہ اسی صورت ممکن ہے جب افغانستان کی معیشت بہتر ہو، عوام کی صلاحیت بڑھائی جائے اور روزگار کے مواقع پیدا کیے جائیں،انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان تاریخ کے ایک دہانے پر کھڑا ہے اور دنیا کو اس سلسلے میں صحیح اقدامات اٹھانا ہوں گے بصورت دیگر صورت حال بگڑ سکتی ہے اور جنگ زدہ ملک ایک بحران کا شکار ہو سکتا ہے۔

شاہ محمود قریشی نے امید ظاہر کی کہ پاکستان اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ کے درمیان افغانستان سے متعلق اتفاق قائم کرنے میں کامیاب ہو گا، اور کل کے غیر معمولی اجلاس کے نتیجے میں دنیا افغان عوام کی مشکلات حل کرنے کے لیے سوچ میں تبدیلی لائے گی،امریکی خبر رساں ایجنسی اے پی کے مطابق پاکستان مسلم ممالک کو اکٹھا کر رہا ہے تاکہ افغانستان کو معاشی اور انسانی تباہی سے بچایا جا سکے اور ساتھ ہی وہ ہمسایہ ملک افغانستان کے نئے طالبان حکمرانوں سے کہہ رہا ہے کہ وہ بیرون ملک اپنی ساکھ بہتر بنائیں۔

اگست کے وسط میں طالبان کے کابل پر کنٹرول کے بعد عالمی برادری نے کابل انتظامیہ پر پابندیاں عائد کر دی تھیں،شاہ محمود قریشی کا ایک علیحدہ بیان میں کہنا ہے کہ اسلامی وزرائے خارجہ کے اجلاس کا مطلب طالبان انتظامیہ کو سرکاری طور پر تسلیم کرنا نہیں،انہوں نے اتوار کو اجلاس کے لیے اپنے ایک پیغام میں کہا کہ وہ کسی مخصوص گروپ کی بات نہیں کر رہے بلکہ وہ افغان عوام کی بات کر رہے ہیں،واشنگٹن میں قائم ویلسن سینٹر کے ایشیا پروگرام کے ڈپٹی ڈائریکٹر مائیکل کگلمین کے مطابق او آئی سی ممالک اس سے زیادہ کر سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت مغربی ملکوں کا طالبان کے ساتھ رابطہ مشکل ہے۔ اس قسم کے رابطے کا مطلب 20 سالہ جنگ میں شکست تسلیم کرنا ہو گا،ان کا مزید کہنا تھا کہ طالبان کے لیے یہفاتح کی حیثیت سے رابطے کے لیے اہل ہونے کے حوالے سے حتمی اطمینان ہو گا، طالبان نے مغرب اور اس کی طاقت ور افواج کو شکست دی اوران کے افراتفری کے شکار اور ذلت آمیز حتمی انخلا کے ذریعے انہیں نقصان پہنچایا،مغرب کے لیے واپس مڑ کر طالبان کے ساتھ صلح کر لینا اپنی شکست کو درست قرار دینے مترادف ہو گا۔