پاکستان میں تقریبا ایک کروڑسے زائد افراد منشیات کے عادی ہیں، ان میں سے اٹھہتر فیصد مرد اور بائیس فیصد خواتین ہیں،پاکستان میں منشیات کے عادی افراد کی مجموعی تعداد د س ملین کے قریب ہے اور منشیات کے استعمال کی وجہ سے ہر سال ملک میں قریب تین لاکھ انسانوں کی جان چلی جاتی ہے پاکستان میں سب سے زیادہ استعمال کیا جانے والا نشہ چرس ہے
پھر آہستہ آہستہ اس کی طبیت خراب رہنے لگی، اسے چیزیں بھولنے لگیں اور ایک بار وہ نشے کے لیے گھر سے پیسے چوری کرتا ہوا پکڑا گیا تو اس کے والدین کو اس کی صورتحال کا علم ہوا، پھر اسے نشے کے عادی افراد کی بحالی کے ایک مرکز میں داخل کرا دیا گیااس نوجون نے بتایا، ''وہ بہت مشکل وقت تھا۔ اب میں کافی حد تک ٹھیک ہوں۔ لیکن میرے کئی ساتھی اب بھی اس نشے کی لت میں مبتلا ہیں۔ میرا ایک دوست جو نشے کے لیے کیمیائی منشیات کا بہت زیادہ استعمال کرتا تھا، اس کے سارے دانت خراب ہو گئے جو نکلوانا پڑے۔ اس کے منہ میں شدید انفیکشن ہو گئی تھی۔
آئس کیا ہے۔۔۔۔۔؟
آئس کی تیاری میں استعمال ہونے والے مخصوس کیمیکلز باآسانی مل جاتے ہیں اور یہ اجزا پاکستان بھر میں دستیاب ہونے کے ساتھ ساتھ ایسے ہیں، جن پر کوئی پابندی عائد نہیں اور نہ ہی لگائی جا سکتی ہے۔ آئس کے استعمال کی روک تھام میں ایک اور رکاوٹ یہ بھی ہے کہ اس کی فروخت روایتی انداز میں نہیں کی جاتی۔ اس کو بیچنے کے لیے آرڈر ملنے پر سپلائی ہوم ڈیلیوری کے ذریعے کی جاتی ہے۔ دوسری طرف کرسٹل میتھ یا آئس کے استعمال سے نیند کے غائب ہو جانے، طاقت کے احساس، اور خوشی کے جذبات کے ساتھ ساتھ متعلقہ فرد کے جارحانہ رویے میں شدت بھی آ جاتی ہے جبکہ بلڈ پریشر میں اضافہ اور ہارٹ اٹیک بھی ان منشیات کے استعمال کے طویل المدتی نتائج میں شامل ہیں۔
بے روزگاری اہم وجہ
پبلک ہیلتھ پروفیشنل ڈاکٹر سبین خان نے بتایا کہ نوجوانوں میں نشے کے بڑھتے ہوئے رجحان کی سب سے بڑی وجہ بے روزگاری ہے، جس کی وجہ سے وہ ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں ابتدا سگریٹ سے ہوتی ہے، پھر چرس کی طرف جاتے ہیں، پھر انجیکشن کا استعمال ان کو زیادہ مزہ دیتا ہے اور آہستہ آہستہ زیادہ سے زیادہ مزے کی تلاش میں وہ ہیروئن اور دیگر نشوں میں ڈوبتے چلے جاتے ہیں۔ دس سال یا اس سے بھی کم عمر کے ایسے نابالغ بچے جو عموما فیکٹریوں میں یا پٹرول اسٹیشنوں پر کام کرتے ہیں، وہ اپنے ماحول کی وجہ سے صمد بانڈ یا پٹرول جیسے سستے لیکن خطرناک نشے کے عادی ہو جاتے ہیں۔ پھر ایک بار جب انہیں ایسے نشے کی عادت ہو جاتی ہے، تو وہ دیگر منشیات بھی استعمال کرنے لگتے ہیں۔
ڈاکٹر سبین نے مزید بتایاکہ ''حکومت کو چاہیے کہ ایسے بچوں اور بالغ افراد کے لیے ایسے ادارے بنائے، جہاں نہ صرف ان کا علاج ہو سکے بلکہ وہ وہیں رہیں اور دوبارہ اپنی زندگی شروع کر سکیں، یہ کام ایک غیر سرکاری تنظیم 'نئی زندگی کے نام سے کر رہی ہے، اس تنظیم کے بحالی مرکز میں بچوں کا علاج کیا جاتا ہے، انہیں مختلف ہنر سکھائے جاتے ہیں اور انہیں ان کے کام کا معاوضہ بھی ملتا ہے، مگر یہ بھی بارہا دیکھنے میں آتا ہے کہ اکثر افراد اپنے علاج کے بعد جب دوبارہ اپنے پرانے ماحول میں جاتے ہیں، تو پھر سے نشہ کرنا شروع کر دیتے ہیں، اس لیے ان کے ماحول کی تبدیلی بھی انتہائی اہم ہے۔
یونیورسٹی طالبات نشے کی عادی کیسے بنتی ہیں۔۔۔؟
کراچی کی رہائشی ایک شہری نے بتایاکہ میری بیٹی ایک مقامی یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھی اور میری بیٹی یونیورسٹی میں بہت نمایاں پوزیشن لیتی تھی لیکن پھر اس کے کچھ نئے دوست بنے، جن کے ساتھ مل کر اس نے نشہ کرنا شروع کر دیا، ''نتیجہ یہ نکلا کہ اسی بری صحبت کے باعث میری بیٹی ہیروئن اور آئس کے نشے کی عادی ہو گئی اس کی آنکھیں سرخ رہنے لگیں، بھوک بالکل ختم ہو گئی تھی، وہ ہماری ایک ہی بیٹی ہے، ہم نے اس کا علاج کرایا جس سے اس کی جان تو بچ گئی مگر اسے پوری طرح ٹھیک ہونے میں ابھی کافی وقت لگے گا، کراچی کے اس شہری نے مزید کہاکہ خدا غارت کرے ان منشیات فروشوں کو جو ہماری نوجوان نسل کو تباہ کر رہے ہیں اور پولیس اور حکومت ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔
پولیس کس حد تک قصور وار۔۔۔۔؟
کراچی پولیس کے ایک افسر نے اس موضوع پر اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایاکہ ''ہم جتنی بھی کوشش کر لیں، بدنامی ہماری ہی ہو گی، لیکن اصل بات یہ ہے کہ ہمارے پاس نہ جدید سہولیات ہیں، نہ کافی بجٹ اور نہ ہی مکمل اختیارات،جتنا بجٹ ملکی فوج کا ہے، اس کا آدھا بھی اگر پاکستانی پولیس کو مہیا کیا جائے، تو پاکستانی معاشرہ جرائم سے پاک ہو سکتا ہے پاکستان کے سب بڑے شہرکراچی کے اس پولیس افسر کے مطابق معاشرے میں بدعنوانی بھی بہت بڑا مسئلہ ہے، ''ہم چھاپے مار کر مجرم اور منشیات پکڑتے ہیں، تو اوپر سے فون آ جاتا ہے کہ انہیں چھوڑ دو، منشیات فروشوں کے بااثر شخصیات سے رابطے ہوتے ہیں،ہم اکثر بے بس ہو جاتے ہیں، اس کے علاوہ تعلیمی اداروں میں منشیات فروشی کے بہت سے واقعات میں تو خود یونیورسٹیوں اور کالجوں کا عملہ بھی ملوث پایا گیاہے پاکستان سے منشیات کی لعنت کو ختم کرنے کے لیے مکمل منصوبہ بندی، کافی وسائل اور پختہ عزم کی ضرورت ہے، جس دوران کوئی بھی بااثر مجرم قانون کی گرفت سے دور نہ رہے۔
ماہرین نفسیات کا موقف۔۔۔۔۔۔
ماہرین نفسیات کے مطابق بچوں میں منشیات کے استعمال کی ایک وجہ ان میں پایا جانے والا تنہائی کا احساس بھی ہوتا ہے جب والدین انہیں زیادہ وقت نہیں دیتے تو بچے اپنے لیے مصروفیات گھر سے باہر تلاش کرتے ہیں، جہاں تک بالغوں کی بات ہے تو ان کے منشیات کا عادی ہو جانے میں بری صحبت کے علاوہ بے روزگاری، مالی مشکلات اور خاندانی مسائل بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں اس کے علاوہ یہ بات بھی ناقابل فہم ہے کہ جب پتہ چلتا ہے کہ کسی خاندان کو کوئی فرد منشیات استعمال کرنے لگا ہے، تو اکثر وسائل نہ ہونے کی وجہ سے اس کا علاج نہیں کرایا جاتا اور اسے 'پاگل اور نفسیاتی مریض کہہ کر نظر انداز کیا جانے لگتا ہے پاکستان میں منشیات کے عادی افراد کی مجموعی تعداد دسملین کے قریب ہے اور منشیات کے استعمال کی وجہ سے ہر سال ملک میں قریب تینلاکھ انسانوں کی جان لے لیتا ہے پاکستان میں سب سے زیادہ استعمال کیا جانے والا نشہ چرس ہے۔
جب پسماندگی اور سماجی اخراج کے مختلف پہلوں، جیسا کہ بے روزگاری اور کم معیار کی تعلیم کا تجزیہ کیا جائے، تو سماجی اور اقتصادی نقصان اور منشیات کے استعمال سے پیدا ہونے والے مسائل اور بیماریوں کے درمیان ایک مضبوط تعلق نظر آتا ہے۔''
0 Comments
Post a Comment