کراچی(ویب ڈیسک)گذشتہ تین ماہ سے ہر جمعے کو انتہائی دائیں بازو کے ہندو گروہوں سے تعلق رکھنے والے افراد باقاعدگی سے انڈیا کے دارالحکومت نئی دہلی کے پوش علاقے گڑگاں میں جمع ہوتے ہیں جہاں ان کا مقصد عوامی مقامات پر نماز پڑھنے والے مسلمانوں کو روکنا ہوتا ہے،ان افراد کا واضح مطالبہ ہے کہ مسلمانوں پر ان تمام خالی پلاٹوں، پارکنگ لاٹس اور رہائشی مقامات کے نزدیک کھلی جگہوں پر نماز پڑھنے پر پابندی عائد کی جائے جہاں وہ برسوں سے اپنی عبادات کرتے آئے ہیں،یہ افراد جمع ہو کر نعرے بازی کرتے ہیں، داخلی راستوں پر گاڑیاں کھڑی کر کے انھیں بند کر دیتے ہیں، نمازیوں پر جملے کستے ہیں اور انھیں جہادی اور پاکستانی کہہ کر پکارتے ہیں،اب کچھ عرصے سے یہ نماز پولیس کے پہرے میں ادا کی جا رہی ہے۔
مظاہرے کرنے والے ہندو گروہ کے رہنماں میں سے ایک کلبھوشن بھردواج نے اس معاملے پر کہا کہ وہ نماز یا مسلمانوں کے خلاف نہیں ہیں لیکن کھلے مقامات پر نماز پڑھنا زمین کا جہاد ہے،دوسری جانب مسلمان رہنماں کا کہنا ہے کہ یہ اسی سلسلے کی کڑی ہے جس میں یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ مسلمان جہاں نماز پڑھ رہے ہیں وہ ادھر قبضہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں،ماضی میں بھی ہندو قوم پرستوں نے مسلمانوں کو لوو جہاد کے نام پر نشانہ بنایا تھا۔ یہ ایک دائیں بازو کے گروہوں کی جانب سے متعارف کروایا گیا سازشی خیال تھا جس میں مسلمان مردوں پر الزام لگایا گیا کہ وہ ہندو عورتوں سے شادی کر کے ان کا مذہب تبدیل کروا رہے ہیں،ان ہندو مظاہرین نے یہ دعوی بھی کیا کہ وہ تقریبا دو درجن ہندو قوم پرست گروہ پر مشتمل ایک مشترکہ گروپ کا حصہ ہیں جسے سنیوکت ہندو سنگ ہرش کا نام دیا گیا ہے اور اس میں شامل افراد میں زیادہ تر کا تعلق ان غنڈوں کے گروپ سے ہے جو بے روز گار نوجوانوں پر مشتمل ہے۔
ہمیں خوف آتا ہے،نماز کے بعد وہ وہاں پھر رہے ہوتے ہیں، سنیل نے حال ہی میں ایک مظاہرے میں شرکت کی تھی جس میں انھوں نے اپنے گھر کے نزدیک ایک 36 ایکڑ رقبے پر قائم خالی پلاٹ پر نماز کی ادائیگی کامیابی سے رکوا دی تھی،گذشتہ ہفتے مظاہرین کو بظاہر سرکاری حمایت بھی مل گئی جب بی جے پی سے تعلق رکھنے والے ریاست ہریانہ کے وزیر اعلی منوہر لال کھٹر نے بیان دیا کہ عوامی مقامات پر نماز پڑھنا قابل قبول نہیں ہے،ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ تصادم ہے، اور ہم اس کو جاری رکھنے کی اجازت نہیں دیں گے،عوامی مقامات پر نماز پڑھنے پر احتجاج سب سے پہلے 2018 میں شروع ہوا۔ بعد میں مذاکرات کے بعد مسلمان شہریوں نے اس بات پر ہامی بھر لی کہ وہ 108 مقامات کے بجائے 37 مقامات پر نماز ادا کریں گے۔
گڑگاں میں کل 13 مساجد ہیں جن میں سے صرف ایک علاقے کے قدرے نئے تعمیر شدہ حصے میں ہے، جہاں زیادہ تر نقل مکانی کر کے رہنے والے افراد رہائش پذیر ہیں،مسلمانوں کی جائیدادوں کی نگرانی کرنے والے بورڈ کے ایک مقامی اہلکار جمال الدین نے کہا کہ جس علاقے میں مسلمانوں کی زمینیں ہیں وہ بہت دور دراز ہیں اور وہاں پر مسلمانوں کی آبادی بھی بہت کم ہے،انھوں نے بتایا کہ ان علاقوں میں 19 مساجد تھیں جنھیں اسی وجہ سے بند کر دیا گیا کہ وہاں نمازیوں کی کمی تھی اور گڑگاں میں دستیاب زمین بورڈ کی قوت خرید سے باہر ہے،گڑگاں کی مسلم کونسل کا کہنا ہے کہ گڑگاں میں شہری منصوبہ بندی کرنے والے حکام نے علاقے میں صرف ایک مسجد تعمیر کی لیکن 42 سے زیادہ مندروں اور 18 گرودواروں کے لیے جگہ مختص کی ہے،پانچ سال قبل مسلمانوں کے دو ٹرسٹ اداروں نے مذہبی مقاصد کے لیے استعمال ہونے والی زمین خریدنے کی کوشش کی تھی لیکن وہ کامیاب نہ ہوئے۔
گڑگاں میں جو آج ہو رہا ہے اس میں 2011 میں لگائی گئی ایک پابندی کی بازگشت سنائی دیتی ہے جب فرانس کے دارالحکومت پیرس میں دائیں بازو کی جانب سے کیے گئے مظاہروں کے نتیجے میں سڑک پر نماز پڑھنے پابندی عائد کر دی گئی تھی اور اس وقت بھی وجہ یہی تھی: مسلمانوں کے پاس مساجد میں جگہ کی کمی ہے بعد ازاں دو مقامی مساجد سے معاہدے کے بعد دو غیر استعمال شدہ بیرکوں کو نماز پڑھنے کے لیے استعمال کیا گیا،اس واقعے کے چھ سال بعد پیرس کے مضافات میں اس سے ملتا جلتا ایک اور مظاہرہ ہوا جس میں عبادت گزاروں نے کہا کہ جس قصبے میں وہ رہتے ہیں وہاں کی انتظامیہ نے نماز کی جگہ پر قبضہ کر لیا تھا۔لیکن انڈیا میں مذہب ہمیشہ عوامی مقامات پر کسی نہ کسی شکل میں آ جاتا ہے،چاہے وہ سالانہ مذہبی تقریبات ہوں یا کوئی جلسے جو ٹریفک کی روانی کو متاثر کرتے ہیں یا کبھی کبھی سڑکیں مکمل طور پر بند کروا دیتے ہیں۔
0 Comments
Post a Comment