وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے سیکٹر ای الیون میں جوڑے کو برہنہ کرنے کے مقدمے میں متاثرہ لڑکی کی طرف سے مرکزی ملزم سمیت شریک ملزمان کو پہچاننے سے انکار کے بعد بہت سے لوگ جہاں خدشات کا اظہار کر رہے ہیں وہیں یہ سوالات بھی پوچھے جا رہے ہیں کہ اس نوعیت کے مقدمات میں مرکزی شکایت کنندہ کے انحراف کے بعد کیا مقدمہ کمزور ہو جاتا ہے اور آیا ملزمان انصاف کے تقاضوں کے برخلاف ریلیف کے مستحق ٹھہرتے ہیں؟
اس مقدمے میں مرکزی ملزم عثمان مرزا سمیت دیگر شریک ملزمان پر گذشتہ برس ستمبر میں فردِ جرم عائد کی گئی تھی اور یہ تمام ملزمان اس وقت اڈیالہ جیل میں قید ہیں۔ تاہم گذشتہ روز ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج عطا ربانی کی عدالت میں بیان دیتے ہوئے متاثرہ لڑکی نے ملزمان کو پہچاننے سے انکار کر دیا اور بیان دیا کہ یہ وہ افراد نہیں ہیں جنھوں نے ان کی برہنہ ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر وائرل کی تھی۔
اس مقدمے کے سرکاری وکیل حسن عباس کا کہنا ہے کہ متاثرہ لڑکی کے منگل کے روز متعلقہ عدالت میں دیے گئے بیان کے بعد انھیں ’ہوسٹائل‘ قرار دیا گیا ہے۔ (ہوسٹائل سے مراد یہ ہے کہ اگر کسی کیس میں مدعی مقدمہ یا گواہ پر شک گزرے کہ وہ مجسٹریٹ کی موجودگی میں اپنی مرضی سے دیے گئے بیان سے منحرف ہو رہا ہے تو حقائق جاننے کے لیے اس پر جرح کا حق حاصل کرنا)۔
انھوں نے کہا کہ اس مقدمے میں چونکہ وہ پراسیکوٹر کے طور پر پیش ہو رہے ہیں اس لیے انھوں نے متاثرہ لڑکی کی طرف سے عدالت میں دیے گئے بیان کے بعد اُن پر ابتدائی جرح گذشتہ روز کی تھی اور اس کیس کی 18 جنوری کو ہونے والی آئندہ سماعت پر جرح کا سلسلہ جاری رہے گا۔
حسن عباس کا کہنا ہے کہ متاثرہ لڑکے نے بھی اسی نوعیت کا بیان حلفی متعلقہ عدالت یعنی ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی کی عدالت میں جمع کروا دیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ اس کیس کی ابتدا میں متاثرہ لڑکی اور لڑکے نے نہ صرف اپنی مرضی سے ضابطہ فوجداری کی دفعہ 164 کے تحت بیان ریکارڈ کروایا تھا بلکہ متاثرہ جوڑے نے اڈیالہ جیل میں جا کر ان تین ملزمان (مرکزی ملزمان کے علاوہ) کو بھی شناخت کیا تھا جو کہ سوشل میڈیا پر وائرل ہونی والی ویڈیو میں نظر نہیں آ رہے تھے۔
انھوں نے کہا کہ متاثرہ جوڑے کو مجسٹریٹ کے سامنے اپنا بیان ریکارڈ کروانے کے لیے ایک گھنٹے کی مہلت بھی دی گئی تاکہ وہ بیان دینے کے بارے میں سوچ لیں کہ آیا وہ بیان دینا چاہتے ہیں یا نہیں۔
انھوں نے کہا کہ شناخت پریڈ کے دوران متاثرہ جوڑے نے یہ بھی بتایا تھا کہ وقوعہ کے روز ان تینوں ملزمان نے کون سے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔
اس سب کے باوجود چونکہ اس مقدمے میں ریاست مدعی ہے اس لیے ریاست تو اس مقدمے کو واپس نہیں لے گی۔ انھوں نے کہا کہ متاثرہ جوڑے کے بیان کے بعد مقدمے میں ملزمان کو کچھ حد تک ریلیف مل سکتا ہے لیکن اُن کی کوشش ہو گی کہ اس مقدمے کے ملزمان کو دستیاب اور ناقابل تردید شواہد کی بنیاد پر مجرم قرار دلوا کر سزا دلوائی جائے۔
فوجداری مقدمات کی پیروی کرنے والے وکیل بشارت اللہ خان کا کہنا ہے کہ عدالت کسی بھی مقدمے کا فیصلہ کرتے وقت صرف کسی گواہ کے اپنے بیان سے منحرف ہونے پر مقدمے کو ختم نہیں کرتی بلکہ شہادتوں کو سامنے رکھتے ہوئے مقدمے کا فیصلہ سُناتی ہے۔
میڈیا سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ کسی بھی مقدمے کی سماعت میں کسی متاثرہ فریق کے مجسٹریٹ کے سامنے دیے گئے بیان کی اہمیت ہوتی ہے اور عدالت کو ان حالات کو بھی سامنے رکھنے ہوتے ہییں جن کی وجہ سے کوئی متاثرہ فریق یا گواہ اپنے بیان سے منحرف ہوا ہو۔
انھوں نے کہا کہ مجسٹریٹ کے سامنے کسی بھی گواہ سے زبردستی بیان نہیں لیا جاتا بلکہ متاثرہ شخص اپنی مرضی سے بیان دیتا ہے، جس کی قانونی حیثیت ہے۔
ملیربار کے وکیل ایڈووکیٹ مظہر علی جونیجو کاکہنا ہے کہ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 161 کے تحت پولیس کو دیے گئے بیان کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی اور اس کو کوئی بھی عدالت میں چیلنج کر سکتا ہے جبکہ مجسٹریٹ کی موجودگی میں دیا گیا بیان واپس نہیں لیا جا سکتا۔
انھوں نے کہا کہ اس مقدمے میں تو فورینزک لیبارٹری کی رپورٹ بھی آ چکی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ متاثرہ جوڑے کی قابل اعتراض ویڈیو میں جو ملزمان نظر آ رہے ہیں ان میں سے زیادہ تر وہی افراد ہیں جن کو پہلے ہی گرفتار کیا جا چکا ہے۔
بشارت اللہ کا کہنا ہے کہ اس فورینزک رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس مقدمے کے مرکزی ملزم عمثان مرزا کی سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو آواز بھی میچ کر گئی ہے جو ایک بڑی شہادت ہے۔
انھوں نے کہا کہ یہ اتنے ٹھوس شواہد ہیں جن کی موجودگی میں ملزمان کو مجرم قرار دینے کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔
تنویر عباسی ایڈووکیٹ کا کہنا ہے متاثرہ جوڑے کی طرف سے عدالت میں جمع کروائے گئے بیان حلفی کے نتیجے میں ان ملزمان کو فائدہ پہنچ سکتا ہے جو اس ویڈیو میں نظر نہیں آ رہے یا جنھیں ابھی تک گرفتار نہیں کیا گیا۔
انھوں نے کہا کہ اس مقدمے کے مرکزی ملزم عثمان مرزا سمیت دیگر ملزمان جو اس ویڈیو میں نظر آ رہے ہیں ان کو ریلیف ملنے کے امکانات بہت کم ہیں۔
اس مقدمے میں متاثرہ جوڑے کی نمائندگی کرنے والے سابق وکیل حسن جاوید کا کہنا ہے کہ دو دن قبل ان کے اپنے کلائنٹس سے ملاقات ہوئی تو اس دوران یہ تاثر ملا کہ جیسے وہ اس مقدمے میں ہونے والی عدالتی پیش رفت سے وہ مطمئن ہیں لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ انھوں نے اپنا وکیل تبدیل کر لیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ عدالت متاثرہ جوڑے کے بیان اور حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے اس مقدمے کا فیصلہ کرے گی۔
اس مقدمے میں اب تک استغاثہ کی طرف سے گواہان کے بیانات قلمبند کیے جا چکے ہیں اور ان پر جرح بھی مکمل ہو چکی ہے جبکہ اس مقدمے کے تفتیشی افسر کا بیان قلمبند ہونا باقی ہے۔
واضح رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے متعلقہ عدالت کو اس مقدمے کا فیصلہ فروری تک سنانے کا حکم جاری کر رکھا ہے۔
دوسری طرف وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے ٹوئٹر پر اپنے بیان میں کہا ہے کہ عثمان مرزا، جی ٹی روڈ ریپ کیس اور شاہ رخ جتوئی جیسے مقدمات نظام انصاف کے لیے چیلنج ہیں۔ انھوں نے سوال اٹھایا کہ ان مقدمات کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر کیوں نہیں ہو رہی اور ان مقدمات کو عمومی مقدمات کے طور پر کیوں لیا جا رہا ہے؟
0 Comments
Post a Comment