پاکستان کے صوبہ پنجاب کی حکومت نے سنیچر کو مری میں 22 سیاحوں کی ہلاکت کی تحقیقات کے لیے پانچ رکنی کمیٹی قائم کر دی ہے جبکہ مری اور گلیات جانے پر پابندی پیر کی شام تک برقرار رہے گی۔

مری میں 22 ہلاکتوں کی وجوہات کا جائزہ لینے کے لیے پانچ رکنی تحقیقاتی کمیٹی قائم
واضح رہے کہ پہاڑی تفریحی مقام مری میں شدید برف باری کے دوران گاڑیوں میں پھنسے ہوئے 22 سیاح جان کی بازی ہار گئے تھے۔

ریسکیو 1122 کی جانب سے جاری کردہ فہرست کے مطابق مرنے والوں میں 10 مرد، دو خواتین اور 10 بچے شامل ہیں۔ زیادہ تر ہلاکتیں کلڈنہ کے علاقے میں سڑک پر پھنسی چار گاڑیوں میں ہوئیں۔

ان میں اسلام آباد پولیس کے اہلکار نوید اقبال اور ان کے خاندان کے آٹھ افراد کے علاوہ مردان سے تعلق رکھنے والے چار رشتہ دار اور ایک اور خاندان کے سات افراد بھی شامل ہیں۔

تحقیقاتی کمیٹی کے اراکین میں ایڈیشنل چیف سیکریٹری پنجاب ظفر نصراللہ، سیکریٹری حکومت پنجاب علی سرفراز، سیکریٹری حکومت پنجاب اسد گیلانی، اے آئی جی پولیس فاروق مظہر شامل ہیں اور پانچویں رکن کی نامزدگی بعد میں کی جائے گی۔ اس تحقیقاتی کمیٹی کو سات دن کے اندر رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔

کمیٹی یہ تحقیقات کرے گی کہ ضلعی انتظامیہ اور پولیس سمیت متعلقہ محکموں نے محکمہ موسمیات کی جانب سے خراب موسم کی پیشگوئی کے باوجود کوئی مشترکہ ایکشن پلان بنایا تھا یا نہیں۔

کمیٹی اس بات پر بھی تحقیقات کرے گی کہ جب مری میں گاڑیاں گنجائش سے زیادہ ہو رہی تھیں تو گلیات اور اسلام آباد سے انٹری پوائنٹس پر سیاحوں کو کیوں نہ روکا گیا۔ اس کے علاوہ کمیٹی اس حادثے کی وجوہات کا جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ ریسکیو آپریشن کے مؤثر ہونے یا نہ ہونے کا بھی جائزہ لے گی۔

اتوار کی شام کو وفاقی وزیرِ داخلہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ اسلام آباد کے راستے سے مری اور گلیات جانے پر پابندی مزید 24 گھنٹے یعنی پیر کی شام تک برقرار رہے گی اور اس دوران صرف وہاں کے رہائشی افراد کو شناختی کارڈز کی پڑتال کے بعد گزرنے کی اجازت دی جائے گی۔

تحقیقاتی کمیٹی ان آٹھ سوالوں کے ممکنہ جوابات کے حوالے سے تحقیقات کرے گی

تحقیقاتی ٹیم کن آٹھ سوالات کے جوابات تلاش کرے گی؟

یہ تحقیقاتی کمیٹی ان آٹھ سوالوں کے ممکنہ جوابات کے حوالے سے تحقیقات کرے گی:

محکمہ موسمیات نے مری کے حوالے سے کئی وارننگز جاری کیں، اس کے باوجود کیا متعلقہ محکموں نے جوائنٹ ایکشن پلان ترتیب دیا؟

کیا الیکٹرانک، پرنٹ یا سوشل میڈیا کے ذریعے سفری تجاویز جاری کی گئی؟

کیا اتنی بڑی تعداد میں گاڑیوں اور سیاحوں کو سنبھالنے کے لیے کوئی پالیسی ترتیب دی گئی؟

جب مری میں رش ایک حد سے بڑھ گیا تو اسلام آباد اور مری کے داخلی راستوں پر گاڑیوں کو کیوں نہیں روکا گیا؟کیا ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لیے پہلے سے کوئی منصوبہ بندی کی گئی تھی؟

کیا پھنسے ہوئے لوگوں کو پناہ دینے کے لیے ہوٹل اور گیسٹ ہاؤسز کو ہدایات جاری ہوئیں؟

جب برف کا طوفان آیا تو ریکسیو آپریشن کی تفصیلات کیا تھیں؟ کیا لوگوں کو گاڑیوں سے نکال کر محفوظ مقامات پر بروقت منتقل کیا گیا؟

وہ کون سی وجوہات تھیں جو اس سانحے کا باعث بنیں؟

مری کو ضلع کا درجہ دینے کا فیصلہ

وزیرِ اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی صدارت میں اتوار کو ایک اجلاس منعقد ہوا جس کے بعد جاری کردہ پریس ریلیز کے مطابق مری کو ضلعے کا درجہ دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے جو اس وقت ضلع راولپنڈی کی تحصیل ہے۔

اجلاس میں مری کی سڑکوں کی تعمیرِ نو، پارکنگ کی سہولیات اور غیر قانونی تعمیرات سے متعلق بھی فیصلے لیے گئے جبکہ مری جانے والی گاڑیوں اور لوگوں کی تعداد کو بھی محدود کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

اتوار کو پاکستانی فوج کے ایک بیان کے مطابق تمام مرکزی سڑکیں ہر طرح کی ٹریفک کے لیے کھول دی گئی ہیں جبکہ کلڈنہ سے باڑیاں تک کی سڑک بھی کلیئر کروا دی گئی ہےفوج کے مطابق اب رابطہ سڑکوں کو کھولنے کا کام جاری ہے۔

دوسری طرف گلیات ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے مطابق ایبٹ آباد سے براستہ نتھیا گلی مری جانے والا راستہ بھی کھول دیا گیا ہے تاہم سیاحوں کو اس طرف سے جانے کی اجازت نہیں ہےپاکستانی فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ کی جانب سے فراہم کردہ معلومات کے مطابق مری اور آس پاس کے علاقوں میں پھنسی تمام گاڑیوں سے لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا گیا ہے جبکہ مری اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں پانچ ریلیف کیمپ قائم کیے گئے ہیں جہاں متاثرین کو خوراک اور گرم ملبوسات اور کمبل فراہم کیے جا رہے ہیں۔

پاکستانی فوج کا کہنا ہے کہ پھنسے ہوئے سیاحوں کو آرمی پبلک سکول کلڈنہ میں عارضی رہائش اور خوراک فراہم کی جا رہی ہےتاہم نامہ نگار بی بی سی فرحت جاوید کے مطابق سڑکوں کے کناروں پر اب بھی کئی گاڑیاں برف میں پھنسی ہوئی ہں جنھیں نکالنے کا کام جاری ہےپنجاب حکومت کی جانب سے مری میں سنو ایمرجنسی نافذ ہے اور تحصیل کو آفت زدہ قرار دیا گیا ہےادھر پاکستان ٹیلی کمیونکیشن اتھارٹی کے مطابق موبائل فون کمپنیاں مری اور گلیات میں مفت کالز کی سہولت فراہم کر دی ہے

امدادی سرگرمیوں کی صورتحال

ریسکیو 1122 کا کہنا ہے کہ اُنھیں جمعے کی صبح آٹھ بج کر 23 منٹ پر پہلی کال موصول ہوئی اور اب تک لاتعداد کالز موصول ہو چکی ہیں جن میں ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جو برف میں پھنسے ہوئے تھے یا اب باہر کسی جگہ پناہ لیے ہوئے ہیں

مری سے اسلام آباد کو ملانے والی مرکزی شاہراہ جسے ’مری روڈ‘ کہا جاتا ہے، پر اب گذشتہ رات کی مانند ٹریفک جام نہیں لیکن ٹول پلازہ پر اب بھی سینکڑوں سکیورٹی اہلکار موجود ہیں اور کسی کو بھی مری نہیں جانے دیا جا رہا۔مری کے مکین اشفاق عباسی دو ہوٹلوں کے مالک ہیں اور انھوں نے بھی اس ریسکیو آپریشن میں حصہ لیاانھوں نے بی بی سی کی حمیرا کنول کو بتایا کہ اس وقت مطلع صاف ہے اور رات کسی بھی ہلاکت کی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔

وزیر اعظم عمران خان کا تحقیقات کا حکم

پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے سیاحوں کی اموات پر دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ غیر معمولی برفباری اور لوگوں کی جانب سے موسم کا جائزہ لیے بغیر وہاں پہنچنے کی وجہ سے انتظامیہ تیار نہ تھی ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں ان کا کہنا تھا ’مری کے راستے میں سیاحوں کی المناک اموات پر نہایت مضطرب اور دلگرفتہ ہوں۔ ضلعی انتظامیہ خاطرخواہ تیار نہ تھی کہ غیر معمولی برفباری اور موسمی حالات کو ملحوظِ خاطر رکھے بغیر لوگوں کی بڑی تعداد میں آمد نے آ لیاان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان ہلاکتوں کی تحقیقات کا حکم دے دیا گیا ہے اور وہ ایسے سانحات کی روک تھام کے لیے کڑے قواعد لاگو کرنے کے احکامات صادر کر چکے ہیں۔

  • ’اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو سنبھالنا ممکن نہیں‘’اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو سنبھالنا ممکن نہیں‘
  • وفاقی وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری نے سنیچر کی شام پریس کانفرنس میں بتایا کہ حکومت پوری طرح الرٹ ہے، وزیرِ اعظم نے اس صورتحال کا نوٹس لے لیا ہے جبکہ فوج کی پانچ پلاٹونز اور ایف ڈبلیو او کی مشینری امدادی کارروائیوں میں مصروف ہے۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اتنی بڑی تعداد میں لوگ اتنے کم وقت میں اگر کسی جگہ پہنچ جائیں تو انتظامیہ کے لیے اتنی بڑی تعداد کو سنبھالنا ممکن نہیں ہوتا۔اُنھوں نے کہا کہ ’ایک ہفتے سے انتظامیہ کہہ رہی تھی کہ وہاں نہیں جائیں‘ اور وہ ایک مرتبہ پھر کہیں گے مری سمیت تمام بالائی علاقوں میں اس وقت بے پناہ رش ہے، چنانچہ لوگ وہاں جانے سے گریز کریں واضح رہے کہ فواد چوہدری نے چند دن قبل اپنی ایک ٹویٹ میں مری میں لوگوں کے بے پناہ اضافے کو خوش آئند قرار دیا تھااُنھوں نے لکھا تھا کہ ’مری میں ایک لاکھ کے قریب گاڑیاں داخل ہو چکی ہیں ہوٹلوں اور اقامت گاہوں کے کرائے کئی گنا اوپر چلے گئے ہیں، سیاحت میں یہ اضافہ عام آدمی کی خوشحالی اور آمدنی میں اضافے کو ظاہر کرتا ہے۔
  • اپنے اس بیان کے باعث فواد چوہدری اپنی پریس کانفرنس میں سوالات کی زد میں رہے تاہم اُن کا کہنا تھا کہ جب حکومت کہتی ہے کہ سیاحت بڑھے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ’48 گھنٹوں میں لاکھوں کروڑوں لوگ وہاں پہنچ جائیں، کیونکہ ایسے نظام منہدم ہو جائے گا۔
  • ایک صحافی کے سوال میں اُنھوں نے دوبارہ اپنے اس بیان کو دہرایا اور کہا کہ پاکستان میں معاشی صورتحال بہتر ہوئی ہے اور لوگوں کا سیاحت کے لیے نکلنا خوش آئند ہے۔ تاہم اُنھوں نے کہا کہ جتنا بڑا یہ واقعہ ہوا ہے اس سے سیکھ کر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔
  • یاد رہے کہ ملک کے شمالی علاقہ جات کے سیاحتی مقامات میں برفباری اور بارشوں کے باعث جمعے کی دوپہر کو پہلے خیبر پختونخوا کے علاقے گلیات میں سیاحوں کا داخلہ بند کرنے کا اعلان کیا گیا اور شام کے وقت مری کو بھی سیاحوں کے لیے بند کرنے کا اعلان کر دیا گیا تھا۔