کراچی طارق روڈ پر واقع مدینہ مسجد سے متعلق سپریم کورٹ آف پاکستان کراچی رجسٹری میں ایک فیصلہ سامنے آیا ہے جس کے خلاف  مذہبی و سیاسی جماعتوں اور عام عوام کا شدید رد عمل سامنے آرہاہے بنیادی طور پر کراچی میں غیرقانونی تعمیرات کے خلاف سپریم کورٹ کراچی رجسٹری نے نوٹس لے رکھا ہے

کراچی کی مدینہ مسجد اور سپریم کورٹ کا فیصلہ:تحریر,حافظ محمد قیصر

مورخہ  4جنوری سال 2022کو اٹارنی جنرل نے عدالتِ عظمی سے طارق روڈ پر قائم مدینہ مسجد مسمار کرنے کے حکم پر نظرِثانی کی استدعا کی اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے اپنی اپیل میں کہا کہ سپریم کورٹ سے درخواست ہے کہ اپنے 28 دسمبر کے حکم پر نظرِ ثانی کرے، سپریم کورٹ کے حکم کی وجہ سے مذہبی تناو جنم لے رہا ہے جس پر چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے کہا کہ سندھ حکومت چاہے تو مسجد کے لیے متبادل زمین دیدے۔

کراچی کی مدینہ مسجد اور سپریم کورٹ کا فیصلہ:تحریر,حافظ محمد قیصر

پارک کیا ہے ۔۔

پارک مقامی رہائشیوں کے لیے ایک ایسی جگہ کو کہتے ہیں جس میں رہائشی تفریح،جسمانی ورزش سمیت دیگر ذہنی سکون حاصل کرنے کے لیے اور کھیل کود کے لیے استعمال کریں اور یہ مکمل طور پر کسی بھی کالونی وٹائون کے مقامی لوگوں کا بنیادی حق ہوتا ہے مقامی رہائشیوں کی اجازت اور متعلقہ اتھارٹی سے اجازت نامہ لیے بغیر دیگرکسی بھی استعمال کے لیے پارک کو ہرگز نہیں لایاجاسکتا ۔

طارق روڈ پر واقع مدینہ مسجد پارک زمین پر واقع ہے ۔۔۔۔

کراچی طارق روڈ پاکستان ایمپلائز کوآپریٹو ہائوسنگ سوسائٹی پر واقع مدینہ مسجد ایک پبلک پارک کی جگہ پر آج سے اکتالیس سال پہلے تعمیر کی گئی تھی اور یہ جگہ پاکستان ایمپلائز کوآپریٹو ہائوسنگ سوسائٹی کے مقامی رہائشیوں کی ہے جنکی اجازت کے بغیراورکوآپریٹو ہائوسنگ سوسائٹی و متعلقہ ڈیپارٹمنٹ کی اجازت کے بغیر پارک کی جگہ پر کسی بھی قسم کی تعمیرجو پارک کے مقاصد کے برخلاف ہو غیرقانونی ہے۔

پارک کی جگہ پر مسجد کی تعمیر پر علماء کا بیانیہ ۔۔۔۔

علماء کے نزدیک جو جگہ علاقے کے لوگوں کی ضرورتوں کے لیے خالی پڑی ہو،وہاں اہلِ علاقہ کی رضامندی سے مسجد بنانا جائز ہے اورحکومت کا فرض ہے کہ لوگوں کی ضرورت کے مدِ نظر وہاں مسجد بنوائے اور اگر کسی علاقے میں مسجد کی ضرورت ہو، اور وہاں ایسی خالی زمین ہو جو کسی کی ذاتی ملکیت نہ ہو، بلکہ مصالحِ عوام کے لیے ہو، اس جگہ مسجد بنانا جائز ہے اور ایسی مسجد میں نماز پڑھنا بھی جائز  اور اجر و ثواب کا باعث ہے۔

 مسلمانوں کے لیے نماز اور اس کے انتظام سے بڑھ کر کوئی مصلحت نہیں ہوسکتی، کیوں کہ یہ ہدایت اور رحمت کا مرکز ہے اور اگر کسی علاقے میں مسجد کی ضرورت ہو اور اہلِ علاقہ کسی خالی سرکاری زمین پرحکومت کے متعلقہ اداروں کی اجازت سے مسجد تعمیر کریں، اور تعمیر کے بعد اس میں باقاعدہ پنج وقتہ نمازیں  و نمازِ جمعہ ادا کی جاتی رہیں اور طویل عرصہ تک حکومت کی طرف سے ان مساجد کے قیام و تعمیر پر کوئی اعتراض بھی نہیں کیا گیا ہوتو یہ حکومت کی طرف سے اجازت سمجھی جائے گی اور ایسی تمام مساجد، شرعی مسجد ہیں، ان کو توڑنا جائز نہیں ، بلکہ ادب و احترام کرنا لازم ہے ۔

دارالافتاء جامعة العلوم الاسلامیہ ،بنوری ٹائون کے مطابق ۔۔۔

کراچی کی مدینہ مسجد اور سپریم کورٹ کا فیصلہ:تحریر,حافظ محمد قیصردارالافتاء جامعة العلوم الاسلامیہ ،بنوری ٹائون نے اپنے جاری کیے گئے فتوے میں بیان کیا ہے کہ  اہلِ محلہ نے پی،ای،سی،ایچ سوسائٹی سے حاصل کرکے، حکومتِ سندھ کے محکمہ سے باقاعدہ نقشہ پاس کروا کر یہ مسجد تعمیر کی ہے اور کی طرف سے نقشہ پاس ہونا حکومت کی طرف سے اجازت میں داخل ہے اوربیالیس سال سے اس مسجد میں ہزاروں افراد پنج وقتہ نمازیں، جمعہ اور اعتکاف وغیرہ ادا کر رہے ہیں اور حکومت نے کبھی منع نہیں کیاہے
 حقیقت تو یہ ہے کہ اس جگہ پر مسجد تعمیر کرنا حکومت کی ذمہ داری تھی، لیکن حکومت کی طرف سے اس ذمہ داری کے پورا نہ کرنے اور مسلمانوں کی دینی ضرورت کے پورا نہ ہونے کی بنا پر خود اہل محلہ نے یہ ذمہ داری سنبھالی اور اپنے افرادی تناسب کو مد نظر رکھتے ہوئے اور قانونی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے اپنی دینی ضرورت کی خاطر یہ مسجد تعمیر کی ہے اسکے علاوہ مزید کہا گیا ہے کہ مسجد ایک مرتبہ تعمیر ہوجانے کے بعد ہمیشہ کے لئے مسجد ہوجاتی ہے، حتی کہ فقہا نے تصریح کی ہے کہ اگر کسی نے غصب کرکے زمین حاصل کرلی اور اس پر مسجد تعمیر کرلی تو غاصب سے یہ توکہا جائے گا کہ مالک کو ضمان اداکردے، البتہ مسجد کو نہیں توڑا جائے گا۔

مدینہ مسجد سے متعلق اٹارنی جنرل اور چیف جسٹس کے دوران سپریم کورٹ میں مکالمہ

کراچی کی مدینہ مسجد اور سپریم کورٹ کا فیصلہ:تحریر,حافظ محمد قیصر
جسٹس قاضی امین نے اٹارنی جنرل کو کہا کہ زمینوں کے قبضے میں مذہب کا استعمال ہو رہا ہے آپ حکومت کے نمائندے ہیں آپ چاہتے ہیں آسمان گر جائے حکومت نا گرے اور عبادت گاہ اور اقامت گاہ میں فرق ہوتا ہے جس پراٹارنی جنرل نے کہا کہ جانتا ہوں یہ ریاست اور صوبائی حکومت کا فرض ہے کہ مسجد کے لیے زمین دے مزید اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ سپریم کورٹ اپنا حکم واپس لے لے جس پرچیف جسٹس نے کہا کہ صرف اتنا کرسکتے ہیں کہ جب تک مسجدکی نئی جگہ نہ ملے تب تک اسے نہ گرانے کا حکم دیں، پارک سے تجاوزات گرانے کا حکم واپس نہیں ہوگا، ہم نے اپنے فیصلے واپس لینے شروع کیے تو اس سب کارروائی کا کیا فائدہ۔۔۔؟

جسٹس قاضی امین نے کہا کہ تجاوزات پر مسجد کی تعمیر غیرمذہبی اقدام ہے ،اسلام اس اقدام کی اجازت نہیں دیتا، مسجد بنانی ہے تو اپنی جیب سے بنائیں جس پر سپریم کورٹ نے سندھ حکومت سے 3 ہفتے میں رپورٹ طلب کرلی ہے ۔

پارک کے استعمال سے متعلق قانون کیا ہے 

اگر کوئی شخص پبلک پارک کو عام استعمال کے علاوہ کسی اور مقصد کے لیے استعمال کرنے کا ارادہ رکھتا ہو تو اسے اتھارٹی کو درخواست دینی چاہیے،اگرپارک  استعمال کرنے سے پڑوسیوں یا عام طور پر علاقے کے رہائشیوں کے حقوق متاثر ہوتے ہیں تو اتھارٹی کو چاہیے کہ علاقہ مکینوں سے اعتراضات کی تفصیل لینے کے بعد اجازت نامہ فراہم کرے

 قانون کے مطابق اگر مطلوبہ استعمال سے پڑوسیوں یا علاقے کے مکینوں کے پبلک پارک کے قریب جانے والی سڑکوں کے آزادانہ اور بلاتعطل استعمال کے حقوق متاثر ہوں یا علاقے کا عمومی منظرنامہ تبدیل ہو جائے تو اتھارٹی کو پلاٹ کی تبدیلی کی اجازت نہیں دینی چاہیے 

اسکے علاوہ منتھلی لاء ڈائجسٹ کے مطابق اتھارٹی فیس کی ادائیگی پر کھانے کی فراہمی، کھیل کی سہولیات، پودوں کی فروخت، باغبانی کے سازوسامان یا کتابوں یا اس طرح کے دیگر مقاصد کے لیے پبلک پارک کے استعمال کی اجازت دے سکتی ہے بشرطیکہ مذکورہ اجازت پبلک پارک کے عمومی منظر نامے پر منفی اثر نہ ڈالے۔

مدینہ مسجد کی زمین سے متعلق ضمان دینا شرعی اصول نہیں ہے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان کراچی رجسٹری کی جانب سے مدینہ مسجد کو گرانے اور سندھ حکومت کو متبادل جگہ فراہم کرنے کے احکامات پر عوام کی جانب سے شدید رد عمل سامنے آرہاہے اور جمعیت علماء اسلام کے رہنما ء مولانا فضل الرحمان کہتے ہیں کہ اگر غصب شدہ زمین پر مسجد تعمیر ہو بھی جائے تو اسے مسمار نہیں کیا جا سکتا بلکہ اس کا تاوان دیا جا سکتا ہے مگر جاوید احمد غامدی کے مطابق اس طرح کا موقف مذہبی جذبات کا اظہار تو ہوسکتا ہے لیکن یہ کوئی شرعی اصول نہیں ہے ۔

 سپریم کورٹ آف پاکستا ن کراچی رجسٹری کے مدینہ مسجد سے متعلق فیصلے اور اس پر عملدرآمد کے بعد آج تک ہائی کورٹس آف سندھ سمیت دیگر صوبوں کے ہائی کورٹس کے تمام فیصلے جو کہ مخصوص شرائط پر پبلک پارکس و کھیل کے میدانوں کو مفاد عامہ کے لیے استعمال کرنے کے حوالے سے جاری کیے گئے وہ تمام کالعدم شمار کیے جائیں گے

اور اسی طرح معزز عدالتوں نے اس سے پہلے جن غیرقانونی جائیدادوں کوریگولرائزڈ کیا ہے انکی تمام فیصلوں کی قانونی حیثیت ختم ہوجائے گی