جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کی طرف سے جسٹس عائشہ ملک کی سپریم کورٹ میں تعیناتی کی سفارش کے بعد اب ان کی تعیناتی کا معاملہ حتمی منظوری کے لیے ججوں کی تقرری کے بارے میں پارلیمانی کمیٹی کے سامنے رکھا جائے گا۔ جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کا اجلاس جمعرات کو چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں ہوا۔ اس اجلاس کا ایک نکاتی ایجنڈا تھا جو کہ جسٹس عائشہ ملک کو سپریم کورٹ کا جج تعینات کرنے سے متعلق تھا۔
جسٹس عائشہ ملک کا نام دوسری مرتبہ کمیشن کے سامنے رکھا گیا تھا۔ اُن کا نام چیف جسٹس گلزار احمد نے تجویز کیا تھا۔
جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے فیصلے کے بعد وزیر قانون فروغ نسیم نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کمیشن کے پانچ ارکان نے جسٹس عائشہ ملک کی سپریم کورٹ میں تعیناتی کی حمایت اور چار نے مخالفت کی۔
ایک صحافی نے اس سے پوچھا کہ کیا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بھی جسٹس عائشہ ملک کی تقرری کی مخالفت کی تو انھوں نے کہا کہ میں مخالفت کرنے والوں کا نہیں بتا سکتا لیکن حمایت کرنے والوں کے نام بتا سکتا ہوں۔
انھوں نے کہا کہ چیف جسٹس گلزار احمد، جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس ر سرمد جلال عثمانی، وزیر قانون اور اٹارنی جنرل نے تعیناتی کی حمایت کی۔ پاکستان بار کونسل کے سینیارٹی سے متعلق موقف پر انھوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے اس موضوع پر موجود ہیں جس میں واضح کیا جا چکا ہے کہ ہائیکورٹ کے جج کی سپریم کورٹ میں تقرری پر سینیارٹی کا اصول مطلق نہیں۔ انھوں نے کہا کہ اگر کسی کو اعتراض ہے تو سپریم کورٹ کے فیصلوں پر نظر ثانی کرائے۔ واضح رہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان میں آج تک کوئی خاتون جج تعینات نہیں ہوئیں۔ گذشتہ برس بھی جسٹس عائشہ ملک کا نام تجویز ہوا تھا تاہم جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں جوڈیشل کمیشن کے ارکان کے چار چار ووٹ برابر ہونے کی وجہ سے اُن کی تعیناتی ممکن نہیں ہو سکی تھی۔
پاکستان بار کونسل سمیت ملک بھر کی وکلا تنظیموں کا ایک دھڑا جسٹس عائشہ ملک کی بطور سپریم کورٹ جج نامزدگی کو ’سینیارٹی کے اصول کی خلاف ورزی‘ قرار دیتے ہوئے اس تجویز کی مخالفت کر رہا تھا۔
جبکہ خواتین وکلا کی تنظیم نے مؤقف اپنایا ہے کہ سپریم کورٹ میں سینیارٹی کی بنیاد پر ججوں کی تعیناتی ابھی تک ایک معمہ ہے اور اس حوالے سے نہ تو ملکی آئین میں لکھا گیا ہے کہ سینیارٹی کو مدنظر رکھا جائے اور نہ ہی اس سلسلے میں کوئی قانونی رکاوٹ ہے۔
جوڈیشل کمیشن کے جمعرات کو ہونے والے اجلاس کے موقع پر وکلا تنظیموں کی طرف سے احتجاج کے مدِنظر پولیس کی بھاری نفری سپریم کورٹ کی عمارت میں تعینات کی گئی تھی۔
سپریم کورٹ ججز کی تعیناتی میں سینیارٹی کا معاملہ
گذشتہ اجلاس میں کمیشن کے رُکن اور سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج دوست محمد نے سنیارٹی کے اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے جسٹس عائشہ ملک کی سپریم کورٹ میں تعیناتی کی مخالفت کی تھی اور وکلا کے موقف کی تائید کی تھی۔
جسٹس ریٹائرڈ دوست محمد کی بطور ممبر کمیشن دو سال کی مدت پوری ہونے کے بعد اُن کی جگہ سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج سرمد جلال عثمانی کو کمیشن کا رکن مقرر کیا گیا ہے۔
جسٹس ریٹائرڈ سرمد جلال عثمانی کی بطور رکن جوڈیشل کمیشن تعیناتی سے متعلق حکومت اور وکلا تنظمیں یہ دعویٰ کر رہی تھیں کہ کمیشن کے نئے رکن بھی اُن کے موقف کی تائید کریں گے۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر احسن بھون نے بی بی سی کو بتایا کہ وکلا تنظمیں جسٹس عائشہ ملک کے خلاف نہیں ہیں اور بلکہ نمائندہ تنظیمیں چاہتی ہیں کہ سنیارٹی کے اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے سینیئر ترین جج کو سپریم کورٹ میں تعینات کیا جائے۔
واضح رہے کہ سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اس وقت سب سے سینیئر جج ہیں اور سپریم جوڈیشل کمیشن نے انھیں سپریم کورٹ میں ایک سال کے لیے بطور ایڈہاک جج تعینات کیا تھا لیکن انھوں نے کمیشن کے اس فیصلے کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر احسن بھون کا کہنا تھا کہ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے قواعد ضوابط کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے من پسند افراد کو سپریم کورٹ میں سینیارٹی کے اصول کے خلاف جج تعینات کرنے کا سلسلہ شروع کیا تھا۔
انھوں نے کہا کہ ایسے ججوں کی قابلیت پر بھی وکلا تنظمیوں نے اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا تھا۔ انھوں نے ایک کمیشن بنانے کی تجویز دی جو ایسے ججوں کی قابلیت کے بارے میں حتمی رائے دے جنھیں، اُن کے مطابق، قابلیت اور میرٹ کو دیکھے بغیر ذاتی پسند یا نہ پسند کی بنیاد پر اعلیٰ عدلیہ میں تعینات کیا گیا۔
’سینیارٹی کوئی قانونی رکاوٹ نہیں‘
یاد رہے کہ گذشتہ روز ’وویمن اِن لا‘ پاکستان کے نام سے قائم خواتین وکلا کی تنظیم کی طرف سے ایک بیان جاری کیا گیا تھا جس میں یہ موقف اپنایا گیا کہ سپریم کورٹ میں سنیارٹی کی بنیاد پر ججوں کی تعیناتی ابھی تک ایک معمہ ہے اور اس حوالے سے نہ تو ملکی آئین میں کچھ لکھا گیا ہے کہ سینیارٹی کو مدنظر رکھا جائے اور نہ ہی اس سلسلے میں کوئی قانونی رکاوٹ ہے۔
اس بیان میں دعویٰ کیا گیا کہ سپریم کورٹ کی تاریخ میں چالیس کے قریب ایسی مثالیں موجود ہیں جس میں ججوں کو سینیارٹی کی بنیاد پر سپریم کورٹ میں جج تعینات نہیں کیا گیا۔ اس بیان میں کہا گیا ہے کہ سینیارٹی کا اصول صرف چیف جسٹس کی تعیناتی میں ہی لاگو ہوتا ہے۔
اس بیان میں آئین کے ارٹیکل 177 کا بھی حوالہ دیا گیا ہے جس میں سپریم کورٹ میں بطور جج تعیناتی کی شرائط بیان کی گئی ہیں۔ یعنی کسی بھی شخص کو سپریم کورٹ کا جج تعینات کیا جا سکتا ہے اگر وہ پاکستانی ہو، اس نے کسی بھی ہائی کورٹ میں پانچ سال کے لیے بطور جج کام کیا ہو اور یا پھر ہائی کورٹ کے وکیل کی حیثیت سے پندرہ سال کی پریکٹس کا تجربہ رکھتا ہو۔
دوسری جانب سپریم کورٹ کے سینیئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کمیشن کے اجلاس میں شمولیت سے معذوری ظاہر کی تھی تاہم انھوں نے سنیارٹی کے حوالے سے ایک خط سپریم جوڈیشل کمیشن کو لکھا ہے جس میں چیف جسٹس کی طرف سے کسی بھی شخص کا نام پیش کرنے کے اختیار کو آئین کے متصادم قرار دیا تھا۔
انھوں نے اس خط میں اس بات کا بھی ذکر کیا ہے کہ کمیشن کے اجلاس میں متعدد نام پیش کیے جانے چاہیے جن کی بنیاد پر کمیشن اپنا فیصلہ کرے۔
سپریم جوڈیشل کونسل کے گذشتہ سال ہونے والے اجلاس میں جن ارکان نے جسٹس عائشہ ملک کو سپریم کورٹ میں بطور جج تعینات کرنے کی حمایت کی تھی اس میں چیف جسٹس گلزار احمد کے علاوہ جسٹس عمر عطا بندیال، اٹارنی جنرل خالد جاوید کے علاوہ وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم شامل تھے۔
جبکہ کمیشن کے چار ارکان نے ان کی بطور جج سپریم کورٹ میں تعیناتی کی تجویز کی مخالفت کی تھی۔
جسٹس عائشہ اے ملک کون ہیں؟
ملکی تاریخ میں پہلی بار کسی خاتون جج کو سپریم کورٹ کا جج مقرر کیا جا رہا ہے۔ تاہم اگر جسٹس عائشہ اے ملک سپریم کورٹ کی جج مقرر نہ ہوتیں تو غالب امکان تھا کہ وہ 2026 میں لاہور ہائیکورٹ کی چیف جسٹس بن سکتی تھیں جو تاریخی اعتبار سے ایک اعزاز تھا۔
جسٹس عائشہ اے ملک 3 جون 1966 میں پیدا ہوئیں اور انھوں نے امریکہ میں ہارورڈ لا سکول سمیت پاکستان اور بیرون ملک سے تعلیم حاصل کی۔ وہ سابق چیف الیکشن کمشنر اور نامور قانون دان جسٹس ریٹائرڈ فخر الدین جی ابراہیم کی ایسوسی ایٹ رہیں اور لگ بھگ چار برس تک یعنی 1997 سے لے کر 2001 تک ان کے ساتھ بطور معاون کام کیا۔
55 سالہ جسٹس عائشہ اے ملک اُس لا فرم کا حصہ رہی ہیں جس کو قائم کرنے والوں میں سے ایک جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بھی تھے۔
جسٹس عائشہ اے ملک کو عدلیہ بحالی کی تحریک کے بعد 27 مارچ 2012 کو لاہور ہائیکورٹ کا جج مقرر کیا گیا اور دس برسوں کے بعد لاہور ہائیکورٹ میں کسی خاتون وکیل کا بطور جج تقرر ہوا۔
لاہور ہائیکورٹ کی خاتون جج جسٹس غائشہ اے ملک اس وقت سنیارٹی کے اعتبار چوتھے نمبر پر ہیں۔ اور اُن کا تقرر ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب پہلے سندھ ہائیکورٹ کے سینیئر ججوں کو نظر انداز کرکے ان کی جگہ پانچویں نمبر پر آنے والے جج کو سپریم کورٹ کے لیے مقرر کیا گیا۔
جسٹس عائشہ اے ملک کے لاہور ہائیکورٹ میں تقرر کے بعد اُس وقت لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن نے ان کے تقرر کے خلاف ایک قرار داد بھی منظور کی جس میں ان کے تقرر پر تحفظات کا اظہار کیا گیا۔ قرار داد اس وقت لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے عاصمہ جہانگر گروپ کے صدر اور لاہور ہائیکورٹ کے موجودہ جج جسٹس شہرام سرور چوہدری کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں منظور کی گئی۔
وہ آئینی، بینکنگ، ٹیکس اور انسان حقوق کے امور دسترس رکھتی ہیں۔
لاہور ہائیکورٹ کی ویب سائٹ کے مطابق وہ پاکستان کی مختلف جامعات میں بینکنگ لا اور مرکنٹائل لا پڑھا چکی ہیں۔ انھیں انگلینڈ اور آسٹریلیا میں بچوں کی تحویل، طلاق، خواتین کے حقوق اور پاکستان میں خواتین کے آئینی تحفظ کے کیسز میں ماہر کے طور پر بلایا جاچکا ہے۔
انھوں نے مختلف این جی اوز کے ساتھ غربت کے خاتمے، مائیکرو فنانسنگ اور ہنر کی ٹریننگ کے پروگرامز میں معاونت کی ہے۔ وہ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کی اشاعت آکسفورڈ رپورٹس فار انٹرنیشنل لا اِن ڈومیسٹک کورٹس کے لیے پاکستان کی رپورٹر رہی ہیں۔
جسٹس عائشہ اے ملک کے مقبول فیصلوں میں جنسی تشدد کی شکار خواتین کے طبی معائنہ کے طریقہ کے بارے میں فیصلہ بہت نمایاں ہے۔ شریف فیملی کی شوگر ملوں کی جنوبی پنجاب کے علاقے رحیم یار خان منتقلی سے روکنے کا فیصلہ بھی ان کے مشہور فیصلوں میں سے ایک ہے۔
ان کی شادی نجی لا کالج کے پرنسپل اور قانون دان ہمایوں احسان سے ہوئی اور ان کے تین بچے ہیں۔
سپریم کورٹ کا جج مقرر ہونے کے بعد جسٹس عائشہ اے ملک کی معیاد عہدہ میں تین برس کی توسیع ہوجائے گی۔ پہلے انھوں نے دو جون دوہزار 28 کو ریٹائرڈ ہونا تھا لیکن اب 2031 میں ریٹائر ہوں گی۔
اس توسیع سے سپریم کورٹ کی نئی جج جسٹس عائشہ اے ملک اپنی ریٹائرمنٹ سے ایک سال پہلے چیف جسٹس پاکستان بن سکتی ہے جو ایک منفرد اعزاز ہوگا
0 Comments
Post a Comment