وطن عزیز پاکستان میں چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے اور احتساب کے مؤثر نظام کی عدم موجود گی کے باعث یہاں کرپشن اگرچہ پہلے سے موجود ہے خاص طور پر سرکاری ادارے کرپشن میں لت پت ہیں ہمارے ملک میں کرپشن کے خلاف ادارہ اینٹی کرپشن بھی،،آنٹی کرپشن،، کا کردار ادا کررہا ہے،کرپشن ہمارے ملک کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے،ہر ادارہ کرپٹ ہوچکا ہے عوام کے جائز کام بھی افسران کی ”مٹھی“گرم نہ کرنے پر نہیں ہوتے جیسے ہی افسران کو رشوت ملتی ہے پلک جھپکنے سے پہلے کام ہوجاتا ہے اور نہ دینے والوں کو دفاتر کے دھکے کھانے پر مجبور کیا جاتا ہے۔
ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا المیہ یہی ہے رشوت کے بغیر کام ناممکن ہے اب یہ بات ہر بندے کے ذہن میں نقش ہوچکی ہے کہ اگر رشوت نہ دی گئی تو ہمارا کام لٹکا دیا جائے گا اس سے بہتر ہے فوری طور پر متعلقہ افسر کو راضی کیا جائے ورنہ ذلیل و خوار ہوتے رہیں گے کرپشن زدہ معاشرے میں حقوق کا قتل عام ہوتا ہے جس سے عام و غریب آدمی کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا جاتا ہے اور اس کو انصاف سے محروم کر دیا جاتا ہے حق تلفی ہونے پر یا تو مظلوم بندہ خاموش انتقامی بن جاتا ہے یا پھر بغاوت پر اتر آتا ہے جس سے وہ زبردستی انصاف لینے کے لیے منفی سرگرمیوں کا بھی سہارا لیتا ہے
ایک عام آدمی کو باآسانی انصاف مل جانا اس کے لیے سب سے بڑا ریلیف ہوتا ہے لیکن یہاں پر صورتحال یکسر مختلف ہے بااثر و مالدار بندے ہی سب پر بھاری ہیں اور وہ رشوت و سیاسی اثر رسوخ کی بنا پراپنے جائز و ناجائز کام فوری سے پہلے کروا لیتے ہیں اب ہم آتے ہیں اپنی تحصیل کبیروالا کی طرف جہاں پر ملازمین دوسری جگہوں پر تبادلے کو اپنی موت سمجھتے ہیں اور مختلف حربوں سے اپنے تبادلے یا انکوائریوں کو ردی کی ٹوکری میں پھینکوا لیتے ہیں کبیروا لا میں سب سرکاری ادارے محکمہ صحت،تعلیم،ریونیو،محکمہ انہار،پولیس،زراعت،واپڈا اور ٹی ایم اے کرپٹ ہوچکے ہیں ان اداروں کے ملازمین نے ہر جائز و ناجائز کام کے ریٹ اپنے دفتروں کے باہر آویزاں کررکھے ہیں افسران کی ”مٹھی“گرم ہونے کی شرط پر فوری کام ہوجا تا ہے اور ”مٹھی“گرم نہ کرنے والوں کو دفتروں کے دھکے کھانے پر مجبور کیا جاتا سرکاری ملازمین دونوں ہاتھوں سے عوام کی جیبیں کاٹنے میں مصروف ہیں
محکمہ صحت میں کرپشن بہت زیادہ ہے بنیادی مراکز صحت،رورل ہیلتھ مرکز اور تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں روزانہ کی بنیاد پر لاکھوں روپے کی کرپشن کی جارہی ہے گورنمنٹ کی طرف سے سرکاری ہسپتالوں کو ملنے والا فنڈز بھی خرد برد ہو رہا ہے سابقہ ادوار میں بوگس بلوں کی مد میں کروڑو ں روپے کے گھپلے ہوئے ہیں جن کی انکوائریاں بھی ”چمک کی کمال“سے ردی کی ٹوکری میں چلی گئیں سرکاری ادویات بھی ملازمین چوری کرتے ہیں جو کہ بعد میں پرائیویٹ میڈیکل سٹوروں کو اونے پونے فروخت کردیتے ہیں تبادلوں پر بھی فی کس پانچ سے دس ہزار تک وصول کیا جاتا ہے ڈپٹی ڈی ایچ او کبیروالا کے دفاتر کے ملازمین دنوں ہاتھوں سے ملازمین کولوٹ رہے ہیں،اکثر سرکار ی ملازمین گھر بیٹھے تنخواہیں لے رہے ہیں اور متعدد ملازمین جعلی اسناد پر ڈیوٹی کررہے ہیں۔
محکمہ پولیس میں بھی کرپشن کا بازار گرم ہے جھوٹے مقدمات بھی عام ہورہے ہیں سرکل کبیروالا کا ڈی ایس پی،تھانوں کے ایس ایچ اوز،محرر حضرات،تفتیشی حضرات دونوں ہاتھوں سے کرپشن کرنے میں مصروف ہیں،مقدما ت کے اندارج و اخراج کے ریٹ مقرر ہیں محرر حضرات روزی روٹی والے تھانوں میں اپنی ڈیوٹیاں لگواتے ہیں ان میں سے کسی ملازم کا کسی دوسری تحصیل میں تبادلہ ہوجانا ان پر قاتلانہ حملہ ہونے کے مترادف ہے اسی طرح محکمہ تعلیم جوکہ ایک پیغمبرانہ شعبہ ہے اس میں کلرک سے لے کر سی ای او ایجوکیشن تک کرپشن کی گنگا میں ہاتھ دھوتے دیکھائی دیتے ہیں اساتذہ کی ریٹائرڈ منٹ پر ان کی پنشن پر بھی محکمہ تعلیم کبیروالا کے کلرکوں نے ریٹ مقرر رکھے ہیں۔محکمہ مال میں سب سے زیادہ کرپشن ہو رہی ہے اسسٹنٹ کمشنر،تحصیلدار،نائب تحصیلدار،قانگو اور پٹواری کسانوں کو مختلف طریقوں سے لوٹ رہے ہیں۔
اراضی سنٹر کبیروالا میں نام تبدیلی،وراثتی انتقال،انتقال پاس کروانے کے دس سے پندرہ ہزارروپے مقرر کیے ہوئے ہیں اورہر کام کے ریٹ مقرر ہیں محکمہ انہار کے ملازمین بھی کرپشن کنگ ہیں، اسی طرح محکمہ زراعت،ٹی ایم اے اور واپڈا کے ملازمین بھی مختلف طریقوں سے عوام سے بھاری رشوت کے عوض کام کرتے ہیں زراعت کے ملازمین فیلڈ میں جانے کی بجائے حاضری لگا کر اپنے گھر وں میں بیٹھ کر تنخواہیں وصول کررہے ہیں تحصیل کبیروالا کے تمام سرکاری اداروں کے ملازمین ”کنگلوں سے بنگلوں“کے مالک بن بیٹھے ہیں اور کرپشن سے اداروں کو دن بدن کھوکھلا کررہے ہیں
ان کرپٹ ملازمین کے لیے تحصیل کبیروالا کے دفاتر ”سونے کی چڑیا“ثابت ہورہے ہیں متعدد درجہ چہارم کے ملازمین کار اور کوٹھیوں کے مالک بن بیٹھے اور کلر ک حضرات مہنگی گاڑیوں میں گھومتے پھرتے ہیں اورعالی شان بنگلوں میں رہائش پذیر ہیں یہ ملازمین جوکہ سالہاسال سے ایک ہی جگہ پر ڈیوٹی کررہے ہیں ان کا کسی دوسری تحصیل میں تبادلہ ہو جائے تو موت پڑنے لگتی ہے۔
متعدد بار ان کرپٹ ملازمین کے خلاف انکوائریاں بھی ہوئی لیکن محکمے نے ان کے آگے گھٹنے ٹیک دیے اگر نیب سے ان کے اثاثوں کی چھان بین کروائی جائے تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوسکتا ہے تحصیل کبیروالا کے ہر محکمہ کے کرپٹ ملازم کی نیب سے ان کے اثاثوں کی چھان بین کروائی جائے جعلی اسناد و ڈپلومے چیک کیے جائیں اور ان کے خلاف سخت سے سخت محکمانہ کاروائی عمل میں لائی جائے ان کرپٹ ملازمین نے کبیروالا سمیت دیہی علاقوں کے بھی سرکاری اداروں کو کرپشن کے ذریعے کھوکھلا کرکے رکھ دیا اور عام آدمی کنگال ہو کررہ گیا ہے۔
0 Comments
Post a Comment