کسی بھی ملکی معاشرے میں عورت کا کردار ایک انتہائ اہم  ناقابل تردید  اور قابلِ قدر کردار ہے ۔ اس کی اہمیت کسی طور بھی مرد سے کم نہیں ۔ 

صنف آہن۔۔۔۔تحریر:عروبہ عدنان

اللہ تعالی نے تخلیقی درجے پہ مرد و زن دونوں کا مقام یکساں رکھا ہے اور بحیثیتِ اشرف المخلوق  بھی یہ رتبہ سراسر برابری کا ہے

لیکن صد افسوس کہ خواتین کے حقوق کو تقریباً دنیا کا ہر معاشرہ رد کرتا ہے اور  اسے حقیقی  مقام دینے سے قاصر ہے۔ دنیا کے مختلف معاشرتی رویوں پر نظر ڈالی جائے تو صرف اسلامی معاشرہ ہی واحد  معاشرہ ہے جس نے عورت کو اسکاحق دے کر اسے اعلی و ارفع مقام پر فائز کیا ۔ 

اقوامِ متحدہ کی رپورٹ کے مطابق دنیا کے ٩٠میں سے ٨۵ فیصد معاشروں میں عورت پہ تشدد کیا جاتا ہے خواتین پہ تشدد دراصل اس بیمار ذہنی سوچ  کی عکاسی ہے جو خواتین کو ان کا جائز مقام اور حق دینے کو کسی طرح تیار نہیں

 اس بیمار اور قبیح سوچ کورفع کرنے کے لیے اقوامِ متحدہ ہر سال ٢۵نومبر سے ١٠ دسمبر تک خواتین پہ جنسی تشدد کے خلاف عالمی مہم چلاتی ہے ۔ 

خواتین پہ تشدد کی کئ صورتیں ہیں جن میں جسمانی تشدد ،جنسی تشدد،نفسیاتی تشدد اور معاشی تشدد شامل ہیں ۔

اقوامِ متحدہ کی ٢٠١٢کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں ۵۴ہزار لڑکیاں ٢٠١٢ میں جسمانی تشدد کے باعث ہلاک ہوئیں جن میں ٣٠ہزار لڑکیاں جنوبی ایشیاء سے تعلق رکھتی تھیں۔ 

 خواتین میں  جنسی تشدد کے حوالے سے اعداد و شمار کا  جائزہ لیں تو اس فہرست میں جو ممالک سب سے پہلے نظر آتے ہیں وہ ترقی یافتہ اور آزادانہ سوچ کے مالک ایسے ممالک ہیں جوخود کو آزادیءنسواں کے علمبردار کہلاتے ہیں

 اس میں سب سے پہلا نام امریکہ کا آتا ہے جو خود کو سب سے زیادہ مہذب اور روشن خیال ملک کہلواتا ہے  امریکہ میں ہر چھ میں سے ایک عورت جنسی تشدد کا نشانہ بنتی ہے ۔ 

دوسرے نمبر پہ ساوتھ افریقہ آتا ہے جو جنسی تشدد کے حوالے سے دنیا میں بدنام ترین ملک جانا جاتا ہے ۔ 

تیسرے نمبر پر سویڈن  ہے جہاں ہر چار خواتین میں سے ایک جنسی تشدد کا نشانہ بنتی ہے ۔ 

چوتھا نمبر ہندوستان کا ہے جہاں ہر بائیس منٹ کے بعد ایک عورت جنسی تشدد کا نشانہ بنتی ہے ۔ 

پانچویں نمبر پہ ترقی یافتہ ،لبرل ملک انگلینڈ ہے جہاں ١٦سے ۵۵ سال کی عمر کی ہر پانچ میں سے ایک عورت جنسی تشدد کا نشانہ بنتی ہے ۔

چھٹے نمبر پہ ٹیکنالوجی کا بادشاہ جرمنی آتا ہے 

ساتویں نمبر پہ فرانس کا نام ہے ۔

آٹھواں بڑا ملک کینیڈا ہے جہاں خواتین سے بدسلوکی اور ان پہ جنسی و جسمانی  کا تشدد کیا جاتا ہے ۔

نویں نمبر پہ سری لنکا آتا ہے یہ بھی مسلم ملک نہیں ۔ 

دسویں نمبر پہ ایتھوپیا آتا ہے جہاں کی ٦٠%خواتین کو جسمانی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ 

اس فہرست سے بخوبی  اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اسلامی معاشرے کے علاوہ ہر معاشرہ عورت کو اسکا اصل مقام دینے میں بری طرح ناکام رہا ہے ۔ 

حیرت کی بات یہ ہے کہ اس فکر انگیز رپورٹ کے باوجود یہ تمام ترقی یافتہ، آزاد سوچ کے مالک ممالک خود کو آزادیء نسواں کے علمبردار گردانتے ہیں ۔ 

کیونکہ یہ اسلام دشمن ممالک مسلم معاشرے کو بدنام کرنا چاہتے ہیں اس لیے وہ مسلم معاشرے کی عورتوں کو مظلوم ظاہر کرنے کےلیے سازشوں کے جال بنتے ہیں ۔

 حالیہ مسلسل ظہور پزیر واقعات انہیں سازشوں کی ہی ایک کڑی ہیں ۔ ٨ مارچ کو ایسی ہی سازشی ذیہن ان آٹے میں نمک کے برابر مادر پدر آزاد عورتوں کو گھروں سے باہر نکالتے ہیں اور یہ سڑکوں پہ اپنی حرکتوں کے باعث ملک و قوم کے وقار کی دھجیاں بکھیرتی پھرتی ہیں اور سوشل میڈیا ان کی ان بیہودہ حرکتوں کو فلما کر دنیا کے سامنے مسلم عورت کے کردار کو بدنما کر کے دیکھاتا ہے ۔ 

ہماری حکومتِ وقت سے گزارش ہے کہ خدارا ٹک ٹاک اور ایسے ہی اور بیہودہ ایپز پہ فوری پابندی عائد کر دی جائے جو ہمارے مستقبل کے معماروں کو تباہ و برباد کر رہی ہیں اور ان کو اپنی تہذیب و تمدن سے دور کرنے کی وجہ بن رہی ہیں نیز ایسے مدر پدر آزاد جلسے جلوسوں کی ممانعت کر کے اسلامی و قومی معاشرے کی دنیا بھر میں تزلیل کا سلسلہ فوری طور پر بند کیا جائے ۔

پاکستان میں ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے کے مطابق چند برسوں میں جنسی استحصال کے جو کیسز رجسٹرڈ ہوئے ہیں ان میں سے ٨٦ فیصد دیہی علاقوں میں اور ٢۴ فیصد شہری علاقوں میں ہیں  ۔ 

ترقی یافتہ ممالک کے اعداد و شمار سے ان کے اس دعوے کی نفی ہوتی ہے جو وہ عرصے سے کرتے آ رہے ہیں کہ ان کا معاشرہ عورت کو مرد کی برابری کا مقام دیتا ہے ۔

 صرف اسلامی معاشرہ ہی واحد ایسا معاشرہ کے جس نے عورت کو وہ مقام دیا ہے جو کوئ غیر مسلم معاشرہ دے ہی نہیں سکتا ۔ 

بلا شبہ اسلام نے جس قدر بلند وبالا و برتر اور اعلی مقام عورت کو بحیثیت ماں،بیوی ،بیٹی اور بہن کے دیا ہے اتنا  کوئ اور مذہب دے ہی نہیں سکتا ۔ہمارے پیارے نبیؐ نے عورت کو اسکا اصل مقام دلایا ،حضرت محمدؐ کافرمان ہے "ماں کے قدموں تلے جنت ہے ". یہ کہہ کر ہر مرد پر فرض کر دیا کہ وہ ماں کا احترام کرے اسکی خدمت کرے تاکہ اسے جنت مل سکے ۔ یہی نہیں آپؐ نے تعلیم کے میدان میں بھی خواتین کے لیئے یکساں حقوق مقرر کئے ۔ 

حضور پاکؐ کا فرمان ہے کہ " علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے " ۔ اسلام نے عورت کو عفت وحیاء کا پیکر بنا کر عزت بخشی ۔ 

عورت کی عزت کسی بھی اسلامی معاشرے کا سب سے اہم اصول ہے مگر  افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ہونے کے باوجود ہم مکمل طور پر اسلامی شریعت لاگو نہیں کر پائے ہیں ۔ جس کا ایک واضح ثبوت عورت کو ہمارے معاشرے میں مرد کی نسبت حقیر سمجھنا ہے ۔۔۔ 

اللہ تعالی نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے جس میں مرد و زن دونوں شامل ہیں اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ سب انسان مساوی ہیں ۔ اس میں کچھ غلط نہیں کہ  انسان تو بس پیدا ہوتا ہے۔ اب یہ خود انسان کے اپنے اوپر منحصر ہے کہ وہ معاشرے میں اپنے انفرادی کردار کو کس طرح ادا کرتا ہے اور خود کو کیا مقام دیتا ہے۔

 یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ رسومات اور تجربات کی روشنی میں اپنے اخلاقی اصول بنا کر اپنے مقام کا تعین کرتا ہے ۔

اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مرد جسمانی طور پر مضبوط ہونے کے باعث معاشرے میں نگہبان اور محافظ کی حیثیت رکھتا ہے مگر یہ بھی سچ ہے کہ ایسے گھرانے بھی اسی معاشرے میں موجود  ہیں جہاں عورت کے ذمہ کفالت بھی ہوتی ہے اور نگہبانی بھی۔

 لہذا یہ امر انتہائی اہم ہے کہ عورت اور مرد  کی تعلیم و تربیت یکساں ہو ۔ مرد و عورت کا جداگانہ دائرہ کار ہماری معاشرتی کمزوری ہے یہ ہمارے رسم و رواج اور عادات کا نتیجہ ہیں ۔ 

اس بات سے قطعاً انکار نہیں کیا جا سکتا کہ عورت فطری طور پر مرد کی نسبت جزباتی ہوتی ہے ۔ اس کے لیے رشتے اہم ہوتے ہیں لیکن اسکا یہ مقصد نہیں ہے کہ ہمارے معاشرے میں اس کی اس فطرت کو اس کی کمزوری سمجھا جائے اور  اسے اخلاقی طور پر بلیک میل کیاجائے ۔

ایک  دانشور ڈی ۔ایچ۔لارنس کا کہنا ہے کہ مرد و عورت کی منطق میں بس اتنا فرق ہے کہ مرد کی منطق عقل پر اور عورت کی منطق عقل اور جزبات دونوں پر ہوتی ہے ۔ ایک حد تک یہ درست بھی ہےعورت کے  جزبات اس کے لیے انتہائ اہمیت رکھتے ہیں لیکن اس امر کو اس کی کمزوری سمجھنا بالکل غلط ہے بقول ایک شاعر 

لوگ عورت کو فقط جسم سمجھ لیتے ہیں 

روح بھی ہوتی ہے اس میں ،کہاں سوچتے ہیں 

یہ بیحد افسوس کی بات ہے کہ ہمارا معاشرہ عورت کو کسی صورت میں بھی وہ مقام نہیں دے پا رہا جو کہ ہمارا عالمگیر مذہب اسے دیتا ہے اگر دونوں کو وہی دیا جو ہمارا دین اسے دیتا ہے تو یہ مرد و زن کا جھگڑا ہی ختم ہو جائے ۔ 

بیشک بیٹیاں تو ایسے پھول کی طرح ہوتی ہیں  جو گر گھر کے گلشن میں ہو تو پورا گلشن معطر رہے اور جب وہ کسی اور کے گلشن میں چلی جائے تو مرجھانے کے بجائے اس گھر کا گلشن بھی اسی طرح معطر ہو جائے ۔ 

کاش کہ ہم یہ بات سمجھ جائیں کہ عورت کی توقیر و عزت میں ہی مرد کی عزت ہے ۔گر ایسا ہو جائے تو وہ من گھڑت قوانین جو ہمارے چند بے ضمیر اور دقیانوسی خیالات کے مالک افراد کے اپنے بنائے ہوئے ہیں وہ ختم ہو جائیں گے ۔ بیحد دکھ کی بات ہے کہ کچھ جاگیردارانہ سوچ کے حامل افراد صرف اپنے ذاتی مفادات کے تحت عورت کو اس کے حق سے محروم کر دیتے ہیں ایسا عموما اس وقت زیادہ دیکھنے میں آتا ہے جب وراثت یا زمین کا مسئلہ آڑے آتا ہے تب یہ ظالم جاگیردارانہ سوچ والے افراد عورت کو قتل کرنے سے بھی نہیں چوکتے ۔۔ اور ایک صورت یہ بھی اکثر نظر آتی ہے کہ جائداد کے بٹوارے کے خوف سے یہ ظالم لوگ عورت کا نکاح قرآن سے کر دیتے ہیں جسکی مزہبی یا اخلاقی کوئ حیثیت نہیں ہے۔ اب جیسے جیسے ہمارا معاشرہ ترقی کر رہا ہے یہ رسومات اور طور طریقے دم توڑ رہے ہیں۔ مگر انکا وجود اب تک ہے اور یہی لمحہء فکریہ ہے ۔ 

قرآن کے مطابق مرد و عورت ایک دوسرے کے حریف نہیں بلکہ زوج ہیں ۔ اس لیے دونوں مل کر ایک بنیاد رکھتے ہیں اور اسی طرح ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں  ۔ ہمارا مزہب کسی صورت عورت پہ جسمانی تشدد کی اجازت نہیں دیتا ۔ جب تک کہ ہم اسلام کی روح کو نہیں سمجھیں گے اور قرآن کو نہیں سمجھیں گے ایک مساوی معاشرے کی بنیاد رکھ ہی نہیں سکتے مزید یہ کہ ہم 

اس بات سے انکار کر ہی نہیں سکتے کہ عورت مرد کے بغیر مکمل ہے وہ  ایک قدم بھی نہیں چل سکتی اور نہ ہی مرد بنا عورت کے کبھی مکمل ہو سکتا ہے ۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے باہم لازم و ملزوم ہیں ۔۔  اور یہی قانونِ قدرت بھی ہے اور قانونِ فطرت بھی ۔

ہمارے معاشرے میں الحمدللہ اب مثبت سوچ پروان چڑھ رہی ہے اور زندگی کے ہر میدان میں عورت اپنا لوہا منواء رہی ہے ۔ چاہے وہ تعلیمی میدان ہو یا تکنیکی میدان ،چاہے وہ دینی میدان ہو یا ثقافتی میدان ہمارے ملک کی عورت کسی طرح سے بھی کم نہیں ۔۔۔  

مثال کے طور پر

   ١_ ارفع کریم (٢ فروری ١٩٩۵ء – ١۴ جنوری ٢٠١٢ء) ایک پاکستانی طالبہ اور غیر معمولی ذہین بچی تھی، جو ٢٠٠۴ء میں محض نو سال کی عمر میں مائیکرو سافٹ سرٹیفائیڈ پروفیشنل (ایم سی پی) بن گئی، جب کہ دس سال کی عمر میں پائلٹ کا اجازت نامہ (لائسنس) حاصل کیا۔ اس بنا پر ارفع کا نام گنیز ورلڈ ریکارڈز میں درج گیا گیا۔یہ اعزاز ٢٠٠٨ء تک ارفع کے پاس رہا۔

 ارفع کریم  نے پاکستان کی طرف سے، مختلف بین الاقوامی فورموں اور ٹیک ایڈ ڈویلپرز کانفرنس میں نمائندگی کی۔ ٢٠٠۵ء میں حکومت پاکستان نے ارفع کو صدارتی تمغائے حسن کارکردگی عطا کیا.  

٢۔۔۔صائمہ سلیم کو کون نہیں جانتا جو پاکستان کی پہلی قوتِ بینائی سے محروم سفارت کار بن گئیں۔ آج کل وہ سیکریٹری برائے انسانی حقوق جنیوا، اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے مستقل مشن کے لیے خدمات سرانجام دے رہی ہیں ۔ 

٣_ شرمین عبید چنائے کو کون نہیں جانتا وہ پاکستان میں پیدا ہونے والی ایک صحافی اور فلمساز ہیں۔ وہ ایمی ایوارڈ اور آسکر اعزاز حاصل کرنے والی پہلی پاکستانی شخصیت ہیں۔ جو اپنی فلم سیونگ فیس (Saving Face) کی وجہ سے زیادہ مشہور ہوئیں۔

۴۔۔۔ بلوچستان  کے علاقے دشت کو چوزریں بگ سے تعلق رکھنے والی ١١ سال کی تارا شریف بنت حسین ہمدام ایرانی نژاد نے آکسفورڈ آئی کیو ٹیسٹ میں ١٦٢ پوائنٹ حاصل کئےجو ایک عالمی ریکارڈ بن گیاجبکہ مشہور سائنسدان اسٹیفن ہاکنگ اور اور آئن اسٹائن کے ١٦٠ پوائنٹس تھے۔اس بچی کے والدین کا تعلق مکران دشت بلوچستان سے ہے۔ 

یہ تو چند مثالیں ہیں جو منظرِ عام پہ آگئیں ورنہ ماشاءاللہ ہمارے ملک کی خواتین کسی صورت کسی بھی ترقی یافتہ ملک کی عورت سے کم نہیں ۔۔۔ 

لیکن افسوس کی بات ہے کہ بعض ذہنی طور پہ بیمار معاشرتی حیوان نما انسان عورت کے معاشرتی حیثیت کو ماننے سے انکاری ہیں اور یہ امر بھی دکھ کا باعث ہے کہ ہمارے ہی معاشرے کی چند مغرب ذدہ عورتیں یکساں برابری کے چکر میں ہماری تہذیب کی دھجیاں بکھیرتی ہوئ نظر آتی ہیں ۔

جہاں یہ انتہائ دکھ کی بات ہے کہ مرد سے برابری کے چکر میں آج کی عورت وہ جزبات اور احساسات سے محروم ہوتی جا رہی ہے جو اسکا فطری تقاضا رہے ہیں اور بس  یہی وجہ ہے کہ آج کا مرد بھی عورت کو وہ عزت نہیں دے رہا جو عورت کو ہمارا دین دیتا ہے ۔

 یہی وجہ ہے کہ آج ہماری زندگیاں بے مزہ اور احساسات سے عاری ہو گئ ہیں اور اپنا توازن کھو بیٹھی ہیں ۔ ہمیں چاہیے کے یہ برابری کی جنگ چھوڑ کر زندگی کے ہر معاملے میں ایک دوسرے کا سہارا بنیں گر ایسا ہو جائے تو یہ دنیا ہی جنت بن جائے ۔