دعا زہرہ کیس میں ایک دوست نے اپنی رائے دینے کا کہا ہے۔ کہ لڑکی کی عمر 18 سال سے کم تھی تو سندھ ہائیکورٹ نے اس شادی کو جائز کیوں قرار دیا ہے

دعا زہرہ کیس

سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ہماری عدالتیں آج تک اس بات پر متفق ہی نہیں ہو سکیں کہ کوئی بھی شادی کب کم عمری کی شادی قرار دی جائے گی اور کب نہیں

 مجھے پہلا اعتراض تو یہ ہے کہ جب ڈاکومنٹری ایویڈنس سے یہ ثابت ہو گیا کہ دعا کی عمر 18 سال سے کم تھی تو پھر میڈیکل کی طرف رجوع کرنا چہ معنی دارد؟

دعا کے والدین کا نکاح نامہ، دعا کا برتھ سرٹیفکیٹ پرائمری ایویڈنس ہے۔

 یہ سرکاری/پبلک ڈاکومنٹس ہیں۔ قانون شہادت میں اس ایویڈنس کو سب سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔

 ہم میڈیکل اور ڈاکٹر کی طرف تب رجوع کرتے ہیں جب عمر کے تعین کیلئے ایسا کوئی ڈاکومنٹ (پیدائش پرچی، ب فارم، اسکول سرٹیفکیٹ، شناختی کارڈ وغیرہ) موجود نہ ہو یہ ڈاکومنٹس ہونے کے باوجود میڈیکل کی طرف کیوں رجوع کیا گیا؟

اس کیس میں مختلف بات یہ ہے کہ سندھ میں لڑکا لڑکی کی شادی کی کم از کم عمر 18 سال مقرر ہے۔ 18 سال سے کم عمر شادی قابل سزا جرم ہے

پنجاب میں قانون مختلف ہےپنجاب میں شادی کیلئے لڑکے کی عمر 18 اور لڑکی کی عمر 16 سال ہونا ضروری ہے

دعا کے کیس میں یہ نکاح سندھ میں نہیں بلکہ پنجاب (لاہور) میں ہوا۔ مطلب یہ کہ اب اس پر 16 سال والا قانون اپلائی ہو گا۔ جرم سندھ میں نہیں، پنجاب میں ہوا تو قانون بھی وہی اطلاق ہو گا جہاں جرم ہوا

اس کیس میں یہ ہو سکتا تھا کہ لڑکی کے شوہر پر اغوا کا کیس درج ہوتا لیکن اس کا حتمی نتیجہ بھی لڑکی کے بیان پر ہوتا

 اگر لڑکی 164 ضابطہ فوجداری کا بیان دے دیتی کہ اسے اغوا نہیں کیا گیا اس نے مرضی سے شادی کی ہے تو یہ ایف آئی آر آرام سے خارج ہو جاتی۔

ہمارے یہاں پنجاب میں بھی اعلی عدالتوں کی اس نقطے پر متضاد آرا والی ججمنٹس موجود ہیں 

کچھ جج صاحبان کا موقف ہے کہ جہاں عمر پر اختلاف ہو وہاں میڈیکل کروا لیا جائے ڈاکٹر کہہ دے کہ لڑکی جسمانی طور پر بالغ ہے تو نکاح جائز ہو گا

کچھ جج صاحبان کہتے ہیں کہ چاہے جسمانی طور پر بالغ ہو لیکن عمر کے حوالے سے جو قانون بنا دیا گیا ہے اس پر عمل کیا جائے گا قانون کا طالبعلم ہونے کے ناطے میری سپورٹ بھی دوسری رائے کی موافقت میں ہے۔

 اگر اسمبلی کے پاس کردہ قانون پر عمل نہ کیا گیا اور معاملات ڈاکٹرز کو ریفر کیے جانا شروع ہوئے تو پھر انتشار ہو گا، کم عمری کی شادی کے رواج کو بڑھاوا ملے گا، کم عمری کی شادیاں جسمانی، معاشی، نفسیاتی خرابیوں کو جنم دیتی ہیں

جہاں تک اس موضوع پر علمائے دین کی رائے کا تعلق ہے تو اس پر میری زبان خاموش ہےمیرے پر جلتے ہیں۔