نئے تعلیمی سال کے آغاز پر درسی کتب، کاپیوں اور اسٹیشنری کی خریداری کیلئے بازاروں کا رخ کرنے والے والدین کو جہاں روزمرہ اشیائے ضروریہ کے حصول میں ہوشربا مہنگائی کا سامنا ہے وہاں ایک غریب،متوسط ، دیہاڑی ،اجرت اورتنخواہ دار شخص کا اپنے بچوں کو تعلیم دلانے کا خواب پورا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔

کتابیں کاپیاں مزید مہنگی
 اس ضمن میں یہ امر انتہائی تشویش کا باعث ہے کہ اس وقت جب تعلیمی اداروں میں نئی کلاسیں شروع ہوچکی ہیں ،منافع خور عناصر نے ملک میں کاغذ کی مصنوعی قلت پیدا کردی ہے جس کے باعث درسی کتب اور کاپیاں 40فیصد سے بھی زیادہ مہنگی ہوگئی ہیں۔

 مزید برآں کاغذ کی عدم دستیابی کے باعث ملک بھر کے ٹیکسٹ بک بورڈوں اور پبلشروں کا آنے والے دنوں میں درسی کتب بروقت شائع کرنا ایک سوالیہ نشان بنا ہوا ہے اور نئی کلاسوں میں جانے والے لاکھوں بچے کتابوں کاپیوں سے محروم ہیں جبکہ تاخیر یا کتابیں کاپیاں نہ ملنے سے ان کا تعلیمی سال بھی متاثر ہوسکتا ہے۔

 اشاعتی اداروں کا کہنا ہے کہ جو کاغذ گذشتہ برس 130 روپے فی کلوگرام میں دستیاب تھا اب اس کی قیمت اڑھائی سو روپے ہوگئی ہے۔ 1500روپے میں ملنے والے کاغذ کا رم چار ہزار روپے تک پہنچ گیا ہے۔ ایک جائزے کے مطابق 2015 میں جو کاغذ 78 روپے فی کلوگرام تھا 2018 میں 92، 2019 میں 103، 2020 میں 108، 2021 میں 130 روپے فی کلوگرام پر پہنچنے کے بعد اب متذکرہ بلندی پر جاچکا ہے۔ پوری دنیا میں کاغذ کی قیمتیں بڑھی ہیں۔

حکومت کو چاہئے کہ ملک میں تعلیم و تدریس کا سلسلہ برقرار اور کاغذ کی قیمتیں اعتدال میں رکھنے کی خاطر اس پر سے جملہ ٹیکس ختم یا حتی الوسع کم کرے تاکہ مہنگی کتابوں کاپیوں کے باعث غریب والدین اپنے بچوں کا تعلیمی سلسلہ منقطع کرنے پر مجبور نہ ہوں۔