نسخہ کیمیا












(گزشتہ سے پیوستہ)
میں ان کے خیالات کی روانی میں بہتا جارہا تھا کہ دوبارہ گویا ہوئے میرے دوست یہ ٹانگیں، یہ بازو،یہ ہاتھ،یہ آنکھیں،یہ کان اور یہ زبان ہمارااصل ریزروبینک ہیں،ہماری زندگی کی ساری کمائی،ہماری ساری پونجی اسی میں جمع ہے۔ اس میں سے کوئی ایک لاکرہمیشہ کے لئے لاک ہو جائے  توہماری پونجی،ہماری کمائی ضائع ہوجائے گی،ہم کنگال ہوجائیں گے ،ہم مفلس اورقلاش ہو جائیں گے۔غریب وہ نہیں ہوتاجس کے پاس زادِراہ نہیں ہوتا،غریب وہ ہوتاہے جس کے پاس پائوں نہیں ہوتے۔اپنے ان پائوں،ان ٹانگوں،ان بازوئوں اوران آنکھوں کاٹیکس دو،ان کی زکو نکالواگرنہ نکالی توقدرت یہ ٹیکس،یہ زکو اسی طرح وصول کرے گی جس طرح حکومتیں قرقی کے ذریعے وصول کیاکرتی ہیں اور انسان سڑک پراس طرح آجاتاہے کہ اپنے تمام قریبی احباب اس طرح آنکھیں پھیرلیتے ہیں کہ کہیں آپ سے ان سے کسی مددیادرخواست کے لئے  مارے ندامت کے کچھ مانگ نہ لیں۔وہ خاموش ہوگئے تومیں نے ان کی طرف دیکھاتووہ اپنامنہ دوسری طرف کرکے اپنی بہتی آنکھوں کے اشک مجھ سے چھپانے کی کوشش کررہے تھے۔
یہ ٹیکس،یہ زکودی کیسے جاتی ہے۔میں نے پہلی مرتبہ سوال کیا؟ہاںانہوں نے چھڑی گھمائیسال میں ایک ویل چیئر، لکڑی کی ایک ٹانگ،ایک بازو،ایک اندھے کی آنکھوں کا آپریشن،ایک آلہ سماعت زندگی کے اس ریزرو بینک کی زکوہے اوربہت ساراشکراورڈھیرساری توبہ اس کمائی،اس پونجی کاصدقہوہ خاموش ہوئے،انہوں نے کچھ سوچااورپھر آہستہ سرد ہوتی آوازمیں بولیہم کتنے بے وقوف ہیں،جودنیا میں کماتے ہیں،اس کاٹیکس توساری عمربھرتے رہتے ہیں لیکن جودولت انعام میں ملتی ہے،جوکچھ ہمیں قدرت عطا کرتی ہے اس کاہم شکرتک ادانہیں کرتے۔افسوس ہمارے پاس آنکھیں ہیں،لیکن ہمیں اندھوں کااندھاپن دکھائی نہیں دیتا،اپنے مولاکے رنگ نظرنہیں آتے!
آپ یقین کریں کہ باباجی کی اس ساری گفتگومیں اس خاص فقرے نے تومیری ریڑھ کی ہڈی تک میں ایسی سنسنی پیداکردی کہزکو نکالواگرنہ نکالی توقدرت یہ ٹیکس،یہ زکو اسی طرح وصول کرے گی جس طرح حکومتیں قرقی کے ذریعے وصول کیاکرتی ہیں۔۔۔میں یہ سوچ رہاہوں کہ ان دنوں اکثرہردوسراشخص اپنی ازدواجی زندگی اور شب وروزکی محنت شاقہ سے پالی ہوئی اولادکے ہاتھوں خون کے آنسو بہاتا ہوا شائداسی لئے نظر آرہاہے کہ ہمارا سب کچھ قرقی کرلیاجاتاہے جس کی پاداش میں ہمیں باعثِ عبرت بنادیاجاتا ہے۔ مختلف قسم کی بیماریوں میں مبتلا ہوکر بالآخرایڑیاں رگڑتے ہوئے اس طرح جہانِ فانی سے کوچ کرجاتے ہیں کہ کفن دفن کے لئے  چندہ  جمع کرنے کی نوبت آجاتی ہے۔پس تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کوجھٹلائوگے۔!
میں ابھی باباجی کے پندونصائح کواپنی روح ودل میں اتارنے اوراپنے حافظہ میں محفوظ کرنے کے لئے  جتن کررہاتھاکہ مقبوضہ کشمیرسے میرے ایک انتہائی عزیزنے فون پرایساہی پیغام ارسالکیا توضروری سمجھاکہ اس کابوجھ بھی آپ سے  شیئر کرلوں کہ ممکن ہے کہ ان پرشب وروز عمل ہماری عقبی وآخرت کی نجات کاوسیلہ بن جائیں:
انسان جب اپنی غلطیوں کاوکیل اور دوسروں کی غلطیوں کاجج بن جائے توپھرفیصلے نہیں فاصلے بڑھ جاتے ہیں،اگرکچھ الگ کرناہے تو بھیڑسے ہٹ کرچلو،بھیڑہمت تودیتی ہے مگر شناخت چھین لیتی ہے۔انسان ہمیشہ تکلیف ہی میں سیکھتاہے،خوشی میں توپچھلے سبق بھی بھول جاتا ہے۔ ہارناتب ضروری ہوتاہے جب لڑائی اپنوں سے ہواورجیتنا تب ضروری ہوتا ہے جب لڑائی اپنے آپ سے ہو۔ خامیاں سب میں ہوتی ہیں مگرنظرصرف دوسروں میں ہی آتی ہیں۔قدرکرنی ہے توزندگی ہی میں کرو،چہرے سے کفن اٹھاتے وقت تونفرت کرنے والے بھی روپڑتے ہیں۔اگرکبھی ایسالگے کہ تم تھک چکے ہو،دعامانگنابھی مشکل لگے تواپنے رب کے سامنے ہاتھ پھیلا لیاکرو،تمہارے پھیلے ہوئے ہاتھ اس بات کا ثبوت ہے کہ تم ربِ کائنات کے محتاج ہو اور بیشک میرارب خاموشیوں کوبھی سنتا ہے۔ میراکریم رب تواپنے بندے سے فرماتاہے کہ میرے لئے لٹ کے تودیکھ،رحمت کے خزانے نہ لٹادوں توکہنا۔آپ کبھی بھی اپنے بارے میں لوگوں کی سوچ کوتبدیل نہیں کرسکتے اس لئے لوگوں کی پرواہ کئے بغیراپنی زندگی اس طرح بسرکیجئے جوآپ کوخوشی دے۔کوشش کروکہ سب ٹوٹ جائے مگروہ مان نہ ٹوٹے جوکسی بہت اپنے نے خودسے زیادہ آپ پرکیاہو۔جوانسان لڑنے کے بعدبھی آپ کومنانے کاہنرجانتاہوتوسمجھ لیں وہ آپ سے بے پناہ محبت کرتاہے۔محبت اورعبادت بتائی نہیں جاتی بس کی جاتی ہے۔اللہ کی چاررحمتیں جوانسان سے برداشت نہیں ہوتیں،بیٹی،بارش، مہمان اوربیماری اورچار عذاب جوانسان خوشی سے قبول کرتا ہے،جہیز،سود، غیبت اورجھوٹ ہیں۔ جو رشتہ  آپ کے باربار آنسوبہانے کاسبب بنے توسمجھ لیں اس نے اپنی مدت پوری کرلی اوراس سے جان چھڑانے ہی میں عافیت ہے۔زندگی میں سب لوگ رشتہ دار یادوست بن کرنہیں آتے،کچھ لوگ سبق  بن کربھی آتے ہیں۔دوسروں کی خوشیوں میں خوش ہونا سیکھیں، اللہ آپ کودینے میں بھی تاخیرنہیں کرے گا۔
چلتے چلتے نسخہ کیمیابھی ساتھ لیتے جائیں، یقینایہ نسخہ زندگی کی کایاپلٹ دینے کی طاقت رکھتاہے:حضرت شبلی نے ایک حکیم سے کہا: مجھے گناہوں کامرض ہے اگراس کی دوابھی آپ کے پاس ہوتوعنائت کیجئے!یہاں یہ باتیں ہو رہی تھیں اورسامنے میدان میں ایک شخص تنکے چننے میں مصروف تھا،اس نے سراٹھاکرکہا:جوتجھ سے لولگاتے ہیں وہ تنکے چنتے ہیں!
شبلی !یہاں آئومیں اس کی دوادیتاہوں۔
حیاکے پھول،صبروشکرکے پھل،عجزونیازکی  جڑ،غم کی کونپل،سچائی کے درخت کے پتے،ادب کی چھال،حسنِ اخلاق کے بیج،یہ سب لے کر ریاضت کے ہاون دستہ میں کوٹناشروع کرو اور اشکِ پشیمانی کاعرق ان میں روزملاتے رہو۔ان سب کودل کی دیگچی میں بھرکرشوق کے چولہے پر پکائو۔ جب پک کرتیارہوجائے توصفائے قلب کی صافی میں چھان لینا اور شیریں زبان کی شکر ملا کر محبت کی تیزآنچ دینا۔جس وقت تیارہوکراترے تو اس کوخوفِ خداکی ہواسے ٹھنڈاکرکے باوضو ہوکر استعمال کرنا۔
حضرت شبلی نے نگاہ اٹھاکردیکھا،وہ دیوانہ غائب ہوچکاتھا!
وہ جوبیچتے تھے دوائے دل
وہدوکان اپنی بڑھاگئے