صارفین کے مطابق وزیر اعظم عمران خان کا بیان خواتین کی تعلیم حاصل کرنے کےعالمی حق کے خلاف تھا
کراچی(ویب ڈیسک)وزیر اعظم عمران خان کی تقاریر پر تنازعات کا سلسلہ ہے کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لیتا نظر آ رہا،ابھی ان کے اکتوبر میں دیے گئے متنازع بیان پر ہونے والی تنقید کی بازگشت ختم ہوئی ہی تھی کہ اتوار کے دن اسلام آباد میں اسلامی تعاون تنظیم کے غیر معمولی اجلاس سے خطاب کے دوران وزیر اعظم عمران خان کی تقریر کا ایک اور اقتباس سوشل میڈیا پر زیر بحث اور زیر تنقید آ گیا،یہ بیان تھا افغانستان میں خواتین کی تعلیم سے متلعق بین الاقوامی برادری کے تحفظات کے بارے میں جس میں وزیر اعظم عمران خان نے مشورہ دیا کہ پشتون کلچر میں دیہاتی اور شہری علاقوں کے فرق اور بچیوں کی تعلیم سے جڑی حساسیت کو ملحوظ خاطر رکھا جائے،اس بیان پر افغانستان کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بحث ہوئی اور سوشل میڈیا صارفین دو واضح حصوں میں بٹے نظر آئے۔
صارفین کا ایک حصہ وہ تھا جن کا خیال تھا کہ وزیر اعظم عمران خان کا بیان متنازع اور خواتین کے تعلیم حاصل کرنے کے عالمی حق کی نفی تھا جب کہ دوسری طرف وہ لوگ تھے جن کا موقف تھا کہ وزیر اعظم کے بیان پر تنقید بلا وجہ اور غالبا تنقید برائے تنقید تھی جس نے بیان کے اصل مقصد پر توجہ ہی نہیں دی۔
وزیر اعظم عمران خان نے تقریر میں کیا کہا تھا۔۔۔۔؟
او آئی سی کے خصوصی اجلاس سے وزیر اعظم عمران خان کی تقریر کا اہم نکتہ تو بین الاقوامی برادری کو یہ باور کرانا تھا کہ اس وقت افغانستان میں معاشی اور انسانی بحران کے دوران مدد کی اشد ضرورت ہے،لیکن اسی تقریر میں انھوں نے افغانستان میں خواتین کی تعلیم سے متلعق بات کرتے ہوئے کہا: 'ہمیں سمجھنا ہو گا کہ جب ہم انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں تو ہر سوسائٹی مختلف ہے۔ ہر سوسائٹی میں انسانی حقوق اور خواتین کے حقوق کو مختلف انداز میں دیکھا جاتا ہے۔ میں آپ کو پاکستان کے خیبر پختونخوا صوبے کی مثال دیتا ہوں جس کی سرحد افغانستان سے ملتی ہے۔ وہاں کا کلچر مختلف ہے اور افغانستان سے ملتا جلتا ہے کیوں کہ طالبان کی اکثریت بھی پشتون ہے اور ہمارے یہاں پشتونوں کی زیادہ تعداد موجود ہے۔ وہاں شہری اور دیہاتی علاقوں کا کلچر بلکل مختلف ہے۔ جیسے کابل شہر کا کلچر ہمیشہ (افغانستان کے) دیہاتی علاقوں سے مختلف رہا ہے۔ ویسے ہی پشاور کا کلچر بھی افغانستان کی سرحد سے ملحقہ (پاکستانی) اضلاع سے مختلف ہے۔ میں ایک مثال دیتا ہوں۔ ہم بچیوں کے والدین کو وظیفہ دیتے ہیں تاکہ وہ بچیوں کو پڑھنے کے لیے سکول بھیجیں۔ لیکن اگر ہم اپنے قبائلی اضلاع جو افغانستان کی سرحد سے ملحقہ ہیں کی ثقافتی روایات کی حساسیت نہ رکھیں تو پھر وظیفوں کے باوجود وہ بچیوں کو سکول نہ بھیجیں۔ لیکن اگر ہم ان کی ثقافت کا احترام کریں تو وہ وظیفے کے بغیر بھی بچیوں کو سکول بھیجنے پر آمادہ ہوتے ہیں۔ تو میرے خیال میں جب ہم انسانی حقوق اور خواتین کے حقوق کی بات کرتے ہیں تو ہمیں اس معاملے کی حساسیت کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔
'افغان شہریوں کے درمیان تفرقے کا بیج بونے کی کوشش'
وزیر اعظم عمران خان کے بیان پر جہاں سوشل میڈیا پر عام صارفین کی جانب سے ردعمل سامنے آیا وہیں افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی نے اپنے ٹوئٹر اکاوئنٹ کے ذریعے بھی رد عمل سامنے آیا ہے،سابق افغان صدر نے اپنی ٹویٹ میں کہا کہ یہ بیان افغانستان کے شہریوں کے درمیان تفرقے کا بیج بونے کی کوشش اور ان کی توہین ہے،سابق افغان صدر حامد کرزئی کا کہنا تھا وہ پاکستان کی حکومت سے درخواست کریں گے کہ وہ افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت اور بین الاقوامی فورمز پر افغانستان کی ترجمانی سے گریز کریں اور صرف دونوں ممالک کے درمیان مثبت تعلقات کی بہتری پر توجہ دیں،حامد کرزئی نے پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کی تقریر کے اس حصے پر بھی اعتراض کیا جس میں دعوی کیا گیا تھا کہ افغانستان میں داعش سرگرم اور پاکستان کے لئے خطرہ ہے،بچیوں کی تعلیم کی آگاہی پھیلانے والی عالمی کارکن اور نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی کے والد ضیا الدین یوسفزئی نے بھی وزیر اعظم عمران خان کے بیان پر ردعمل میں اسے انتہائی مایوس کن قرار دیا۔
ٹوئٹر پر ضیاالدین کا کہنا تھا کہ او آئی سی کو یہ بتانا کہ ثقافتی حساسیت کے لیے بنیادی انسانی حقوق سے سمجھوتہ کیا جا سکتا ہے ثقافت کے نام پر طالبان کے تعصب کو معمول بنانے کے مترادف ہے جو حیران کن ہے،چند افغان سوشل میڈیا صارفین نے گلہ کیا کہ افغانستان میں خواتین کی تعلیم ماضی میں معاشرے کا اہم حصہ رہا ہے،ایک افغان ٹوئٹر صارف خلیق احمد نے افغانستان میں خواتین اساتذہ کی ایک تصویر شیئر کی اور لکھا کہ وزیر اعظم عمران خان کو علم ہونا چاہیئے کہ قندھار میں 1959 میں خواتین اساتذہ موجود تھیں جن میں ان کی والدہ بھی شامل تھیں۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان ہزاروں سالوں سے تعلیم کا مرکز رہا ہے۔
ایک اور صارف سلیمان سروری نے بھی چند تصاویر شیئر کیں اور لکھا کہ افغانستان میں پہلا گرلز سکول ایک صدی پہلے کھل چکا تھا جب کہ انیس سو ساٹھ میں کبری نورزئی پہلی خاتون وزیر صحت بنی تھیں۔ انہوں نے دعوی کیا کہ ایک وقت تھا جب پاکستان، انڈیا، چین اور ایران سے طالب علم کابل یونیورسٹی میں پڑھنے آتے تھے۔
'وزیر اعظم عمران خان نے کیا غلط کہا ہے؟'
اس تنقید کے جواب میں سوشل میڈیا پر جوابی رد عمل آیا۔ کسی نے بیان کا سیاق و سباق سمجھایا تو کسی نے کہا کہ تنقید کرنے والوں نے شاید بیان ہی درست طریقے سے نہیں سنا،افغان سوشل میڈیا صارف سنگر پیکار نے اپنے پہلے ردعمل میں حیرت کا اظہار کیا کہ کیا واقعی وزیر اعظم عمران خان نے ایسا بیان دیا ہے لیکن بعد میں انھوں نے تقریر کے اس مخصوص حصے کی ویڈیو کے ساتھ وضاحت کی کہ اگر اصل بیان کو سنا جائے تو وہ تنقید کرنے والوں کی جانب سے پیش کردہ مفہوم سے مختلف اور کافی حد تک قابل فہم ہے،'اصل میں تو انھوں نے کہا کہ اگر ہم قدامت پسند برادریوں کی ثقافتی حساسیت کا خیال نہیں رکھیں گے تو پھر وہ بچیوں کو سکول نہیں بھیجیں گے،پاکستانی ٹوئٹر صارف زیب بلال نے ضیا الدین یوسفزئی کے تنقیدی ردعمل کے جواب میں کہا کہ وزیر اعظم عمران خان نے کب انسانی حقوق پر سمجھوتہ کرنے کی بات کی ہے،ان کا زور اس بات پر تھا کہ ثقافتی حساسیت کو ملحوظ خاطر رکھا جائے اور افغان شہریوں کو اس وقت انسانی مدد سے محروم نہ کیا جائے۔ کیا دنیا طالبان کی جانب سے تعلیم میں رکاوٹ کی وجہ سے افغان شہریوں کو بھوکا رہنے دے؟'
'بس پرچی نہیں لینی'
اس تمام بحث کا ایک تیسرا رخ بھی سوشل میڈیا پر نظر آیا جس میں وزیر اعظم عمران خان کی تقاریر اور ان سے جڑے یکے بعد دیگرے تنازعات کی اصل وجہ زیر بحث تھی،تجزیہ نگار اور کالم نویس مشرف زیدی نے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ اگر ایک بائیس کروڑ کی آبادی والے ملک کے وزیر اعظم کی تقاریر کی مفصل وضاحتیں درکار ہوں تو پھر مسئلہ طرف داری کا نہیں بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ یا تو وزیر اعظم وہ کہہ نہیں پا رہے جو وہ کہنا چاہتے ہیں یا پھر وہ وہی کہہ رہے ہیں جو وہ کہنا چاہتے ہیں،'دونوں صورتوں میں وہی ذمہ دار ہیں،مشرف زیدی کے مطابق 'غالبا وزیر اعظم اپنی اس خواہش کا اظہار کرنا چاہ رہے تھے کہ اس وقت نا صرف افغان شہریوں کو مدد کی فوری ضرروت پوری کی جائے جس کے لیے طالبان کے ساتھ کام کرنے کا کوئی راستہ بھی نکالا جائے۔'
0 Comments
Post a Comment