ملک میں عشروں سے جاری مالی بدعنوانیوں کا احتساب، تحریک انصاف کی حکومت کا بقولِ خود اصل مشن ہے۔ تاہم حیرت انگیز طور پر وہ ان حوالوں سے اپنے اوپر عائد ہونے والے الزامات کا حساب دینے سے گریزاں چلی آرہی ہے۔

پی ٹی آئی فارن فنڈنگ رپورٹ

فارن فنڈنگ کیس اس ضمن میں کلیدی اہمیت کا حامل ہے جسے حتیٰ الوسع ٹالنے کے لیے ہر ممکن حربہ استعمال کیا جاتا رہا لیکن گزشتہ روز الیکشن کمیشن میں اس معاملے میں نہایت اہم پیش رفت ہوئی۔ کیس کی سماعت چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی سربراہی میں تین رکنی کمیشن نے کی جہاں پی ٹی آئی اکاؤنٹس کی جانچ پڑتال کیلئے قائم اسکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ پیش کی گئی۔

 چیف الیکشن کمشنر نے تحریک انصاف کی جانب سے اسے خفیہ رکھنے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے رپورٹ تمام فریقوں کو فراہم کرنے کی ہدایت کی جس کے بعد رپورٹ کی تفصیلات سامنے آ گئیں جن کے مطابق وزیراعظم عمران خان کی سیاسی جماعت نے پارٹی کے بینک اکاؤنٹس الیکشن کمیشن سے چھپائے، الیکشن کمیشن میں عطیات سے متعلق غلط معلومات فراہم کیں۔ پی ٹی آئی نے سال 2008-2009اور 2012-13میں الیکشن کمیشن کے سامنے ایک ارب 33کروڑ روپے کے عطیات ظاہر کیے جبکہ دستیاب حسابات کے مطابق پی ٹی آئی کو ایک ارب 64کروڑ روپے کے عطیات موصول ہوئے تھے۔ یوں تحریک انصاف نے 31کروڑ روپے سے زائدکے عطیات اور تین بینک اکاؤنٹ الیکشن کمیشن میں ظاہر نہیں کیے۔ 

اسکروٹنی کمیٹی کو نیوزی لینڈ کے بینک اکائونٹس تک بھی رسائی نہیں دی گئی۔ رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی اکاؤنٹ اسٹیٹمنٹ میں شامل کیش رسیدیں، بینک اسٹیٹمنٹ سے مطابقت نہیں رکھتیں۔

رپورٹ کے مطابق تین بینکوں نے 2008سے 2012تک کے حسابات کی تفصیلات اثاثوں میں ظاہر نہیں کیں، پانچ سال میں چارٹرڈ اکاؤنٹینٹ فرمز نے آڈٹ رپورٹس کا ایک ہی ٹیکسٹ جاری کیا، چارٹرڈ اکاؤنٹینٹ فرم نے اپنی آڈٹ رپورٹ میں کوئی تاریخ درج نہیں کی جبکہ تاریخ کا درج نہ ہونا اکاؤنٹنگ معیارات کے خلاف ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تحریک انصاف نے چند افراد کے علاوہ فارن فنڈنگ کے مکمل ذرائع ظاہر نہیں کیے ہیں جس کی وجہ سے اسکروٹنی کمیٹی اس پر کوئی تبصرہ کرنے سے قاصر ہے۔ رپورٹ کے مطابق تحریک انصاف کو یورپی ممالک اور مشرقِ وسطیٰ کے ممالک کے علاوہ امریکہ، کینیڈا، برطانیہ، جاپان، سنگاپور، ہانگ کانگ، سوئٹزرلینڈ، نیدرلینڈ اور فن لینڈ سمیت دیگر ممالک سے فنڈ موصول ہوئے۔

 اسکروٹنی کمیٹی کے مطابق جب تحریک انصاف سمیت فریقین کی طرف سے مکمل ڈیٹا تک رسائی سے متعلق تعاون نہیں کیا گیا تو پھر کمیٹی نے الیکشن کمیشن کی اجازت سے اسٹیٹ بینک اور پاکستان کے دیگر بینکوں سے 2009سے 2013کے ریکارڈ تک رسائی حاصل کی اور یوں یہ رپورٹ مرتب کی گئی۔ 

اس ضمن میں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ سیاسی جماعتوں کو بیرون ملک سے ملنے والی رقوم کے معاملے میں الیکشن کمیشن میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے کیس بھی زیر سماعت ہیں اور کمیشن نے ان دونوں جماعتوں کی مبینہ فارن فنڈنگ پر کمیٹی سے پیش رفت رپورٹ دس روز میں طلب کر لی ہے۔ بڑی سیاسی جماعتوں کے مالی معاملات کا یہ محاسبہ قومی سیاست کو بیرونی عناصر کی جانب سے ملکی معاملات میں اپنے مخصوص مفادات کے لیے مداخلت اور ان پر اثر انداز ہونے کی راہیں مسدود کرنے کے لیے ضروری ہے۔ 

بیرونی فنڈنگ کے ذرائع کو دانستہ چھپانا واضح طور پر بدنیتی کا مظہر ہے لہٰذا اس رویے کا مظاہرہ کرنے والی تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے اوپر عائد ہونے والے اعتراضات کا اطمینان بخش جواب فراہم کرنا چاہیے ، بصورت دیگر ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی ضروری ہوگی۔