عقل کِِھسکاتا سانڈھے کا تیل:تحریر ڈاکٹر حفیظ الحسن

یوں اگر دیکھا جائے تو پاکستان آبادی کے اعتبار سے دنیا کاپانچواں بڑا ملک بنتا ہے۔  

سال 2019 کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ایک عورت اوسطاً 3 سے زائد بچے جنتی ہے۔اسی طرح شماریات کا ڈیٹا اکٹھا کرنے والی ویب سائٹ Statista  کے مطابق  پاکستان میں نوزائیدہ بچوں میں شرح اموات 56 سے زیادہ ہے یعنی ہر 1000 پیدا ہونے والے بچوں میں تقریباً 56 بچے پیدائش کے وقت ہی مختلف پیچیدگیوں کے باعث مر جاتے ہیں۔

 نوزائیدہ بچوں میں اموات کی یہ شرح پورے جنوبی ایشیاء کے ممالک میں سب سے زیادہ ہے اس لحاظ سے پاکستان دنیا میں 25ویں نمبر پر ہے۔ اس سے اوپر کچھ افریقی ممالک ہیں۔ شرح اموات میں یہ اضافہ کئی وجوہات کی بنا پر ہے جن میں کزن میریج، خواتین کے ساتھ معاشرے کا برتاؤ، جنسی استحصال، بنیادی طبی سہولیات کا فقدان اور دیگر عوامل شامل ہیں۔ 

ہمارے عمومی رویے اس بات کا مظہر ہیں کہ خواتین کو محض بچے پیدا کرنے کی مشین سمجھا جاتا ہے۔ معاشرے میں جنسی مسائل پر بات کرنا اقدار کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔ مگر حال یہ ہے کہ خرگوشوں کی طرح بچوں پر بچے پیدا ہو رہے ہیں۔ جیسے یہ جنسی عمل سے نہیں بلکہ ہوا میں منتر پڑھنے سے آ رہے ہوں۔ 

سونے پر سہاگہ کہ ہر گلی محلے کی دیواروں پر جنسی امراض کے پوسٹر آتے جاتے معاشرے کے مردوں کا منہ چڑاتے ہیں۔ اس سے ہوتا یہ ہے کہ مرد حضرات لاعلمی میں جنسی احساسِ کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ کوئی پوچھنے والا نہیں۔

حکیموں، اتائیوں،جعلی عاملوں کی چاندی لگی ہوئی ہے۔ غریب اور کم تعلیم یافتہ عوام حکیموں کے معجون، اتائیوں کی دوائیں کھا کھا کر نفسیاتی مریض بن چکے ہیں۔  ایسے ایسے غیر سائنسی علاج اس قوم نے جنسی مسائل کے حل کے لیے ڈھونڈے ہوئے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے انہی میں  ایک سانڈھے کا تیل ہے۔

سانڈھا دراصل صحرائی چھپکلی کی ایک قسم ہے۔جو پاکستان کے گرم صحرائی علاقوں میں پایا جاتا ہے۔ یہ بے ضرر سی مخلوق صحرا میں  سبزہ کھاتے اور شکاری پرندوں اور درندوں سے خود کو بچاتا ہے مگر  میرے ہم وطنوں سے نہیں بچ پاتا کہ اُنکی نظر اسکی چربی پر ہے۔

چربی اگر انسانوں کے دماغ پر چڑھی ہو تو انہیں جانوروں کی چربی میں بھی جنسی مسائل کے حل نظر آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ یہی حال ہمارے ہاں بھی ہے۔ 

سانڈھے کی چربی بھی دیگر جانوروں کی چربی کیطرح ہے مگر اس خناس کا کیا کیا جائے جو بنا تحقیق و تصدیق کے اس بات پر مصر کرتا ہے کہ نہیں صاحب اس سانڈھے کی چربی میں کوئی جادوئی مردانہ طاقت ہے۔

  آپ اندرونِ لاہور یا کراچی چلے جائیے، وہاں گلی کوچوں اور چوراہوں میں سانڈھے کے تیل بیچنے والے مجمع لگا کر بیٹھے ہونگے۔سامنے معذور کیے ہوئے سانڈھے پڑے ہونگے جنکی ان ظالموں نے  کمر کی ہڈیاں توڑ کر رکھی ہوگی کہ وہ ہل بھی نہ سکیں۔

 گاہک اپنے "نفس" کو مضبوط کرنے کی خواہش میں ان سے تازہ تازہ چربی پگھلوا کر انکا تیل نکلوائیں گے اور شیشیوں میں بھر کر گھروں میں بیویوں پر تجربے کرنے پہنچ جائیں گے۔حال یہ ہے کہ وطنِ عزیز میں سانڈھے کی نسل ختم ہو رہی ہے مگر جنسی مسائل ختم ہونے کو نہیں آتے۔ 

ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام میں سائنسی شعور بیدار کیا جائے۔ انہیں بتایا جائے کہ سانڈھے کا تیل کوئی جادوئی تیل نہیں اور جنسی مسائل کے حل کے جدید سائنسی اور نفسیاتی طریقہ علاج سے ہی ممکن ہے۔

 آپ اگر بنیادی بیالوجی پڑھ لیں تو شاید آپکو معلوم ہو جائے کہ چربی بشمول انسانوں کے ہر جانور  میں پائی جاتی ہے جسکا بنیادی مقصد جانور کی بقا ہے تاکہ خوراک کی کمی کی صورت وہ جانور اس چربی کے اس ذخیرے کو استعمال کر کے زندہ رہ سکے۔ 

معاشرے میں اس طرح کی غلط فہمیوں اور مسائل کے حل کا واحد راستہ سائنس کی جدید تعلیم ہے تاکہ کوئی سانڈھے کا تیل لگا کر آپکی عقل نہ کھسکا سکے۔فی زمانہ  بہتر معاشرے کی بنیاد سائنسی علوم کے حصول سے ہی ممکن ہے۔ ورنہ لگاتے رہیئے سانڈھے کا تیل اور نکالتے رہئے عقل کا تیل۔

#